قابل توجہ باتیں 

کسی زمانے میں اور وہ زمانہ تھا 1948اور 1990کا درمیانی عرصہ کہ جب بھی ہاکی کا کوئی میچ پاکستان اور بھارت کی ہاکی ٹیموں کے درمیان کھیلا جاتا تو پاکستان اور بھارت کے کھیلوں کے حلقوں میں ایک ہیجان کی سی کیفیت ہوتی اس زمانے میں ایک لمبے عرصے تک ہاکی کے مقابلے یا تو ایشیائی اولمپکس میںہوتے اور یا پھر ورلڈ اولمپکس میں اور وہ ہر چار سال بعد منعقد ہوتے اکثر ایسا ہوتا کہ فائنل میں پاکستان اور بھارت کا ہی ٹاکرا ہوتا ۔اس دور میں بھی برصغیر میں کرکٹ کھیلی جاتی تھی پر ہاکی کا بول بالا تھا 1990کے بعد وطن عزیز میںہاکی پس پردہ چلی گئی اور اس کی جگہ کرکٹ نے لے لی ‘الیکٹرانک میڈیا نے کرکٹ کے کھیل کی پروموشن میں ایک کلیدی کردار ادا کیاہے اگر آپ مختلف کھیلوں کا ایک تقابلی جائزہ لیں کہ جو اس ملک میں مقبول عام تھے یا اب بھی ہیں تو ان میں سر فہرست کرکٹ اور ہاکی ہی ہیں جن میں ہماری ٹیموں نے دنیا کی چند بہترین ٹیموں میں اپنے لئے کوئی نہ کوئی مقام بنایا ہے۔ کسی دور میں تھوڑے عرصے تک ہم نے فٹبال میں بھی پیش رفت ضرور کی تھی پر وہ صرف ایشیا کی حد تک تھی سکواش ایک ایسا کھیل ہے کہ جس میں پاکستان کا کوئی ثانی نہیں پر چونکہ یہ ایک انفرادی قسم کا کھیل ہے جو کرکٹ ہاکی یا فٹبال کی طرح ٹیم کی شکل میں نہیں کھیلا جاتا۔ اس لئے اس کی نوعیت دوسرے کھیلوں 
سے مختلف ہے۔ ملک کی موجودہ معاشی صورتحال سے ہر محب وطن پاکستانی پریشان ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی قائدین مل کر ان مسائل کا حل ڈھونڈ نکالیں۔کیونکہ ان کے آپس کے اختلافات سے اگر کوئی متاثرہو رہا ہے تو وہ عام آدمی ہے ۔اب کچھ تذکرہ دیگر امور کا ہوجائے۔وطن عزیز میں ٹریفک کے حادثات میں جس قدر اموات سامنے آرہی ہیں اتنے تو مختلف بیماریوں سے بھی نہیں ہوتیں۔ اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ ہمارے ہاں ٹریفک قواعد کی پابندی نہیں کی جاتی۔ اکثر گاڑیوں کی فٹنس ہی اس قابل نہیں ہوتی کہ انہیں سڑکوں پر لایا جائے ۔ اس کا نتیجہ پھر یہی نکلتا ہے کہ موڑ کاٹتے ہوئے ٹائی راڈ ٹوٹنے سے گاڑی الٹ جاتی ہے۔ اس طرح اوورلوڈنگ بھی ایک گھمبیر مسئلہ ہے ۔ گاڑیوں میں مقررہ حد سے زیادہ سواریاں بٹھانے کی صورت میں بھی اکثر حادثات پیش آتے رہتے ہیں اس کا تدارک آسان ہے تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ گاڑیوں کی چیکنگ اس طرح ہو کہ کوئی گاڑی نہ تو اوورلوڈ ہو اور نہ ہی ان فٹ۔کچھ ایسے باتیں بھی ہیں کہ جن کی پابندی کرکے ہم ٹریفک حادثات میں ہونے والے نقصانات کو کم کر سکتے ہیں‘ ہمارے ہاں سیٹ بیلٹ باندھنے میں لوگ دلچسپی نہیں لیتے اور بہت کم ہی لوگ سیٹ بیلٹ باندھ کر ڈرائیونگ کرتے ہیں‘ حالانکہ یہ خود گاڑی چلانے والے کی حفاظت کیلئے ضروری ہے ‘ اس طرح موٹر سائیکلوں پر ہملٹ کے بغیر سواری کرنے والوں کی بھی کمی نہیں‘ حالانکہ موٹر سائیکل حادثے میں جان بچنے کے امکانات اس وقت ہی زیادہ ہوتے ہیں جب موٹر سائیکل سوار نے ہملٹ پہن رکھی ہو۔