غلام حسن حسنو کی لکھی ہوئی تاریخ بلتستان ہر طرح کی خامیوں سے پاک ہے‘مصنف نے اس کو جان بوجھ کرمنصوبہ بندی کے تحت 3حصوں میں تقسیم کیا ہے اور ان میں سے دو جلدیں ایسی ہستیوں کے بارے میں ہیں جومرکربھی زندہ جاوید ہیں ، کتاب کی خوبی یہ ہے کہ افسانہ شاعری اور ناول کی طرح خود کوپڑھنے کی دعوت دیتی ہے جب تک قاری پڑھ کرآخری صفحے کوپلٹ نہ دے کتاب ہاتھ سے نہیں چھوٹتی ۔غلام حسن حسنو کو ان کی ادبی خدمات پرصدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی ملاہے اسلئے ان کی تحریروں کا معتبر اور مستند ہونا مسلمہ امرہے۔پہلی جلد بلتستان کی دینی وروحانی تاریخ پر ہے،دوسری جلد میں بلتستان کی سیاسی اور انتظامی تاریخ کا احاطہ کیا گیا ہے ‘تیسری جلد کو بلتستان کی علمی وادبی تاریخ کے مطالعے کےلئے وقف کیا گیا ہے مواد کی یہ ترتیب بجائے خود ایک تخلیقی عمل ہے اور یہ تخلیقی عمل کتاب کے ہرصفحے سے عیاں ہوتا ہے مصنف کا قلم
ہرواقعے کوتخلیقی کسوٹی پررکھتا ہے اور تخلیقی طورپر نیااسلوب اختیار کرکے واقعات کو پرکشش اور جاذبیت سے بھرپور رنگ دے دیتا ہے‘ تاریخ نویس کاکمال یہ ہے کہ وہ موضوع پرزور دار گرفت رکھتا ہے اور جذباتیت سے مغلوب نہیں ہوتا اپنی ذات اور اپنی پسند یااپنی ناپسند کو انداز بیان پر اثر انداز ہونے نہیں دیتا،جلد اول کی ابتدا میں بون مت یا پونچھوس کا ذکر ہے، پھر بدھ مت اور لاما ازم کا بیاں آگیا ہے‘مصنف نے تاریخی آثار وشواہد کے حوالوں سے مواد کومزین کیا ہے‘اشاعت اسلام کاباب آٹھویں صدی ہجری بمطابق چودھویں صدی عیسوی سے شروع ہوتا ہے ابتدائی مبلغین کشمیر اور ترکستان کی طرف سے آئے میرسید علی ہمدانی ؒ783ھجری میں بلتستان آئے ان کو امیرکبیر اور شاہمدان کے القاب سے بھی یاد کیاجاتا ہے ‘ اسکے بعد سید محمد نوربخش ؒ 850ہجری میں بلتستان وارد ہوئے ‘ اس سلسلے کاتیسرا مبلغ میرشمس الدین عراقی تھا ان کا زمانہ911 ہجری بمطابق 1505ءقرار دیا جاتا ہے،تاریخ بلتستان کی جلد دوم میں چینی اقتدار،تبتی اقتدار اور مقامی قبائل کی حکومتوں کاذکر ہے جو قبل از مسیح سے شروع ہوتاہے‘مقامی حکمرانوں میں مقپون،اماچہ اور یبگومشہور خاندان گذرے ہیں یہ دورسترھویں صدی عیسوی تک پھیلا ہوا ہے‘اس دور کے نامور حکمرانوں میں علی شیرخان انچن کانام آتا ہے جس نے بلتستان کو متحد کرکے کشمیر،چین اور تبت کی طرف سے ہونےوالے حملوں سے محفوظ
کیا ‘اس حصے میں ڈوگروں کے خلاف جدوجہد کاذکر ہے اور مقامی راجاوں کی طرف سے لگائے گئے ٹیکسوں کی تفصیل دی گئی ہے‘ ڈوگروں کےخلاف آخری معرکے میں قلعہ کھربچو کا محاصرہ،ڈوگرہ فوج کی پسپائی اور سکردو کے قلعے پرپاکستانی پرچم لہرانے والے چترالی مجاہدین کاذکرنہیں کیاگیایہ تشنگی رہے گی‘کتاب کے جلد سوم میں علمی اور ادبی روایات کوجمع کیا گیا ہے دنیاکی سب سے بڑی داستان کیسرداستان بلتی زبان میں ہے جسے یونیسکو نے عالمی ورثہ قرار دیاہے‘یہ 12ابواب پرمشتمل ہے اور اس میں 7000اشعار ہیں اردو،چینی،تبتی اور انگریزی میں اس کے تراجم ہوچکے ہیں۔اس حصے میں سولہویں صدی سے لیکر اب تک بلتی زبان میں نثراور نظم کے اصناف ، ناول ، افسانہ ،تنقید ، تحقیق، ترجمہ،مرثیہ،غزل وغیرہ پرہونے والے کام کا جائزہ لیاگیا ہے۔ بحیثیت مجموعی یہ تاریخ میں دلچسپی رکھنے والو ں کیلئے بہترین انتخاب ہے ۔