اہم امور پر ایک سرسری نظر 

ملک کے سیاسی حلقوں کو ایک عرصے سے انتظار تھا کہ میاں محمد نواز شریف کب لندن سے واپس پاکستان تشریف لاتے ہیں ۔انجام کار ان کی وطن واپسی کے تاریخ کا تعین ہوہی گیا وہ 21 اکتوبر کو واپس پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ان کے آنے سے یقینا ملکی سیاست میں ایک نئے دور کا آغازہو گا اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ کیا وہ خود وزارت عظمیٰ چوتھی مرتبہ حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں یا اب کی دفعہ وہ اپنی صاحبزادی کو اس منصب پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں یہ بھی ایک سوال کہ شہباز شریف کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا۔ ادھر زرداری صاحب ایک سے زیادہ مرتبہ اپنی اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں بلاول کو وزارت عظمٰی کے سنگھاسن پر بیٹھا دیکھنا چاہتے ہیں سیاسی رہنماﺅں کا اس بابت خیال کیا ہے ظاہر ہے کہ وزارت عظمیٰ کا منصب حاصل کرنے کے لئے مندرجہ بالا امیدواروں کو تمام سیاسی پارٹیوں کا تعاون بھی درکارہوگا ۔پاکستان میں تعینات امریکی سفیر کچھ عرصے سے غیر معمولی طور پر متحرک نظر آ رہے ہیں اور اس میں تو کوئی شک نہیں کہ امریکہ اس وقت پاکستان کا خیر خواہ نہیں، امریکی سفیر کی سرگرمیوں پر سخت نظر رکھنا ہو گی ۔سابق وفاقی وزیر خواجہ ہوتی کی طرزسیاست سے بھلے کوئی اتفاق کرے یا نہ کرے پر انہوں نے یہ بڑے پتے کی بات کی ہے جو اس ملک کے عام آدمی کے دل کی آواز بھی ہے کہ قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کو سب جانتے ہیں آئندہ کیلئے ان لوگوں کو ملک پر مسلط نہ کیا جائے۔انہوںنے کہا کہ مجھ سمیت تمام سیاست دان اپنے گریبانوں میں جھانک کر دیکھیں کہ سب نے غریب عوام کو کس حال تک پہنچایا ہے۔ خواجہ ہوتی کی اس بات میں بھی کافی وزن ہے‘یہ چینی سائنسدانوں کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے بحیرہ جنوبی چین میں سمندری تھرمل توانائی سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی ہے۔دیکھا جائے تو چین اس وقت پوری دنیا کےلئے ایک مثال ہے جس نے ایسے کارنامے انجام دئے ہیں کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ تھوڑے عرصے میں بہت بڑی آبادی کو غربت سے نکال کر خوشحالی سے ہمکنار کرنا بھی چین ہی کا کارنامہ ہے ۔ اب سمندری پانی سے بجلی پیدا کرنے میں جو کامیابی پائی ہے تو یہ بھی چین کی کامیابیوں کے تاج میں ایک اور ہیرے کا اضافہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان کو خوش ہونا چاہئے کہ اس کے پڑوس میں چین واقعہ ہے اور پھر پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات بھی مثالی ہیں۔ اسلئے تو پاکستان کو چین کی دوستی اوراس کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔ پاکستان میں بھی توانائی کا بحران ہے اور چین نے جس طرح توانائی کے نت نئے ذرائع کو دریافت کیا ہے وہ پاکستان کیلئے اپنے مسائل پر قابو پانے کا ایک اہم موقع ہے۔اب تھوڑا جائزہ بین الاقوامی منظر نامے کا ہوجائے جہاں شمالی کوریا کے صدر روس کے دورہ پر پہنچے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان دفاع سمیت کئی شعبوں میں تعاون کے معاہدوں کا امکان ہے ۔امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک نے روس اور شمالی کوریا کے درمیان دفاعی تعاون پر تشویش کا اظہار کیاہے اور ان کا کہنا ہے کہ روس شمالی کوریا کے ہتھیاروں سے یوکرین جنگ کو طول دے سکتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ روس کو شمالی کوریا کے ہتھیاروں کی ہرگز ضرورت نہیں۔ وہ اس حوالے سے خودکفیل ہے۔