اچھی گفتار کے فائدے 

دوسری جنگ عظیم کئی برسوں تک جاری رہی ہٹلر کے خلاف یوں تو کئی یورپی ممالک اکھٹے ہو کر لڑ رہے تھے اور امریکہ بھی ان کے ساتھ مل گیا تھا پر عملاً جرمنی کے خلاف مندرجہ بالا اتحادی ممالک کی کمان برطانیہ کے وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل کر رہے تھے ہٹلر ہر روز اپنی تقاریر میں چرچل کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا اور ان کے خلاف نہایت ہی غلیظ اور اخلاقیات سے گری ہوئی گھٹیا زبان استعمال کرتا ایک مرتبہ ایک برطانوی اخبار نویس نے چرچل کی توجہ ہٹلر کی ان کے خلاف بد زبانی کی طرف مبذول کرائی تو چرچل نے جواب میں ایک بڑا معنی خیز جملہ کہا انہوں نے کہا ایسا لگتا ہے چرچل کی پرائمری ایجوکیشن درست نہ تھی یہ ہوتا ہے پڑھے لکھے سیاسی رہنماوں کی گفتار کا طریقہ جو چرچل میں تھا اور جس کا ہٹلر میں فقدان تھا اسی طرح کسی زمانے میں ڈاگ ہیمرشولڈ نامی ایک ڈپلومیٹ اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری تھے وہ جنرل اسمبلی کے ایک اجلاس کی صدارت کر رہے تھے جسے اس وقت کے سوویت یونین کا وزیر اعظم نکیتیا خروشیف خطاب کر رہا تھا خروشیف ایک نہایت بد زبان شخص تھا اپنی تقریر کے دوران اس نے اپنے ایک پاﺅں سے جوتا اتار کر اسے زور سے روسٹرم پے پٹختے ہوہے ڈاگ ہیمرشولڈ کو کتا کہہ ڈالا اب اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اگر چاہتے تو ان کے پاس اختیار تھا کہ وہ اس نازیبا حرکت پر خروشیف کو سارجنٹ ان آرمز sergeant in arms کے ذریعے جنرل اسمبلی کی عمارت سے باہر نکال دیتے پر وہ یہ سب کچھ پی گئے بعد میں جب ان سے ایک اخباری نمائندے نے یہ پوچھا کہ انہوں نے خروشیف کے خلاف قانونی کاروائی کر کے انہیں جنرل اسمبلی سے باہر کیوں نہ نکالا تو انہوں نے کہا شاید میری تربیت سوویت وزیر اعظم کی تربیت سے بہتر ہوئی تھی‘ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ زبان ہی انسان کو تخت پر بٹھایا کرتی ہے اور زبان ہی انسان کا تختہ بھی کرتی ہے ۔اب آتے ہیں بین الاقوامی معاملات کی جانب ‘امریکہ نے یوکرائن کے واسطے 25 کروڑ ڈالر کی مالیت کے فوجی سازو سامان کا جو تازہ ترین اعلان کیا ہے وہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ وہ روس کے خلاف یوکرائن کی ہلہ شیری کرنے سے باز نہیں آ رہا اس سے ظاہرہے کہ تیسری جنگ عظیم کاخطرہ بجائے کم ہونے کے بڑھے گا ۔چین اور بھارت کے درمیان اروناچل پردیش اور ارکسائی چن کے علاقوں کی ملکیت پر نیا تنازعہ کھڑا ہو گیاہے کیونکہ چین میں حال ہی میں شائع ہونے والے ایک نئے نقشے میں ان علاقوں کو چین کا حصہ ظاہر کیا گیاہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ دونوں علاقے تبت کا حصہ رہے ہیں اور تبت کو چین اپنا علاقہ تصور کرتاہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں جو دو متحارب گروپس نیٹو اور وارسا پیکٹ کی شکل میں پیدا ہوئے تھے وہ ختم نہیں ہوئے ہیں۔ انہوں نے صرف اپنی شکل بدل لی ہے۔ وارسا پیکٹ کاایک لمبے عرصے تک سوویت یونین روح رواں تھا اب چین بھی روس کے ساتھ امریکہ دشمنی میں شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ چینی لیڈر شپ کی سیاسی سوچ اور عمل و فہم ذہانت امریکی رہنماﺅں کی پالیسیوں پر ہر لحاظ سے غالب آئی ہے۔ چین نے بغیر کوئی گولی چلانے اور کسی ملک پر مسلح یلغار کئے بغیر سیاسی تجارتی اور معاشی طور پر ہر بر اعظم میں اپنا اثر و نفوذ بڑھا لیا ہے۔ افریقہ ہو کہ لاطینی امریکہ، ایشیا ہو کہ مشرق وسطی۔ ہر جگہ چین کی جے جے کارہے ۔ اس سے زیادہ ہماری بدقسمتی بھلا اور کیا ہو سکتی ہے کہ 6 سے 16 سال کے ہمارے ملک میں رہنے والے دو کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ رشک آتا ہے ان ممالک کے حکمرانوں پر کہ جنہوں نے اپنے عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی کو دیگر تمام چیزوں پر ترجیح دی ہے۔ مفت اور لازمی تعلیم ،ہر بیمار کےلئے مفت اور یکساں معیار کا طبی علاج اور آمد و رفت کیلئے عمدہ اور محفوظ پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم وغیرہ ۔یہ چند بنیادی سہولیات ہیں کہ جو صحیح معنوں میں سوشل ویلفیئر ممالک کے حکمرانوں نے اپنے عوام کو فراہم کی ہیں ۔انقلاب فرانس کے بعد برطانیہ کی اشرافیہ نے محسوس کر لیا تھا کہ اگر بر طانیہ میں عام آدمی کی بنیادی ضروریات کو پورا نہ کیا گیا تو اس کا بھی وہی انجام ہو سکتا ہے کہ جو فرانس کی اشرافیہ کا وہاں کے عام آدمی کے ہاتھوںہواہے۔