اسکی آواز میں بڑی شکستگی تھی تھکی ہوئی پژمردہ سی آواز جو اسکی ہنس مکھ شخصیت کے بالکل برعکس تھی وہ میری دوست ہے‘وہ ہر روز میری طبیعت پوچھنے کیلئے فون کرتی ہے‘ میری کوئی بیٹی نہیں ہے جب اس کا فون آتا ہے میں سمجھتی ہوں شاید بیٹیاں ایسی ہی ہوتی ہوں گی ماں کی خبر گیری کیلئے ہر روز فون کرنے والی‘ اسکے دکھ سکھ کو بانٹنے والی‘ اور مجھے اسکی یہ محبت فطرت کے بہت قریب لے جاتی ہے آج اس کا فون آیا تو آواز تھکی ہوئی تھی بہت اصرار کیا کہ کیا بات ہے سفید پوشی کا بھرم رکھنا بڑی ظالم شے ہوتا ہے کہ تنگدستی ہے بھی لیکن نظر بھی نہ آئے مہنگائی نے اچھے سے اچھے کھانے پیتے گھرانے کو ہیجان میں مبتلا کر دیا ہے کہنے لگی پرنسپل نے گزشتہ چار مہینے سے میری دو مہینے کی تنخواہ روک کے رکھی ہوئی ہے بڑی امید تھی کہ آج ضرور دے دیگی لیکن پھر سے ایک بہانہ کرکے مجھے اگلے مہینے کا وعدہ کرلیا‘استانی کی تنخواہ 10کے ہندسوں کے اندر یعنی9ہزار‘10ہزار‘8ہزار اور پھر تنخواہ دیتے وقت فیاضی کا یہ عالم کہ بغیر کسی کی ضرورت کو جانے اور سمجھے بغیر اسکو مہینوں تک روک لیا جائے میں نے اسکو بہت تسلی دی اور کہا انشا اللہ ضرور پرنسپل کے دل میں رحم آئیگا اور وہ تمہیں ہماری حق حلال کی کمائی کی ادائیگی کردیگی لیکن یہ بات مجھے سوچنے پر مجبور کرگئی کہ آخر ہم کیوں ایک مزدور کی اجرت روک لیتے ہیں وہ مزدور جو اپنے بچوں اور اپنے گھر کی دال روٹی پورا کرنے کیلئے اپنی پوری توانائی سے کام کرتا ہے چاہے وہ دہاڑی دار مزدور ہو یا تنخواہ دار مزدور ہو‘ سچ پوچھیں تو ان کی ظاہری حالت میں تو فرق ہو سکتا ہے ان کی باطنی کیفیت ایک جیسی ہی ہوتی ہے پریشانی ہاتھ میں مزدوری ملنے کے بعد کے اخراجات کو پورا کرنے کی تھی اور اگر ایسے میں کوئی انسان ایسی فرعونیت کر بیٹھے کہ مزدوری روک لے تو مزدور کا دل تو ٹوٹ ہی جائیگا اور اس پر طرہ یہ کہ چار چار مہینے تک تنخواہ نہ دینا رب کے غضب کو آواز دیتا ہے نہ جانے کتنی ہی استانیاں استاد‘ دکانوں میں بیٹھنے والے سیلز مین دہاڑی دار مزدور اور تھوڑی اجرت پر کام کرنے والے کس کس صاحب حیثیت کے ظلم کا نشانہ روز ہی بنتے ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ استاد کی تنخواہ پہلی دو تین تاریخوں میں ادا کر دی جائے اور جہاں جہاں بھی کوئی محنت کش کام کر رہا ہے کوئی اپنے منہ سے آپ سے نہیں مانگے گا شاید وہ اپنے پہناوے سے بھی آپ کو کھاتا پیتا نظر آئے لیکن یقین کریں کہ جب اتنی تھوڑی اجرت پر آپ کے پاس کام کر رہا ہے تو پھر وہ ایسا سفید پوش ہے جس کا حال رب کے سوا اور اسکے خاندان کے منتظر مکینوں کے سوا کوئی نہیں جانتا میری زندگی کا زیادہ عرصہ مغرب میں گزرا وہاں تھوڑی اجرت یا مفت کام کرنے کا کوئی رواج نہیں جو اجرت حکومت وقت نے مقرر کر دی ہے وہی سب کو دی جاتی ہے اگر کسی نوکری میں تربیت کی ضرورت ہو تو اس تربیت کی اجرت دی جاتی ہے ہمارے ہاں کتنے ہی کم سن بچے دکانوں پر کام سیکھنے کیلئے تربیت لیتے ہیں اور کئی کئی سال وہ صرف چھوٹے کے طورپر لگا دیتے ہیں ہفتہ وار چند روپے اور مالک کے کچھ ذاتی کام‘ کوشش ہوتی ہے کہ کام آہستگی سے سکھایا جائے اور اگر وہ اپنے شوق اور لگن سے کچھ زیادہ سیکھنا چاہتا ہے تو حوصلہ شکنی کارواج عام ہے اول تو ان بچوں کو سکولوں میں ہونا چاہئے لیکن وہ اگر کسب گر بننا چاہتے ہیں تو التماس تویہی ہے کہ ان کو سکھانے کا عمل قدرے تیز ہونا چاہئے ہمارے بچے‘ ہمارے مزدور بہت ذہین ہیں ہم اگر ان کی ذہانت کو نظر انداز کرینگے تو یہ ایک ایسا انسان جنم دیگی جس کے دل میں نفرت‘ انتقام اور اس معاشرے سے بددلی بڑھے گی اپنے بچوں اور بڑوں کو محبت جیسے جذبوں سے روشناس کرنے کیلئے ان کو اپنی کارکردگی سے ایسا سبق دیجئے کہ اسکی روح محبت کیساتھ پرورش کرے کسی کی مزدوری اور اجرت نہ روکئے آپ کو معلوم نہ ہوگا کہ کیسے کیسے خواب اس تھوڑی سی اجرت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اپنی دوست کی دکھی آواز میں کبھی نہیں بھولتی میں اگر چاہتی تو اسی وقت اسکو وہ مختصر سی تنخواہ والی رقم بھجوا دیتی لیکن اس عمل سے شاید میں اس کے دل کو زیادہ ٹھیس پہنچاتی اور اسکی سفید پوشی کے بھرم کو زک لگ جاتی ہم اپنے معاشرے کو اچھا بنانے کیلئے اپنی ذات سے نیکی کو شروع کریں تو یہ سب سے زیادہ لائق تحسین ہوگا ہم اپنے بچپن میں کتاب کے اسباق پڑھتے تھے تو ایک سبق مجھے ہمیشہ یاد رہتا ہے کہ آپ کم از کم دن میں ایک نیک کام ایسا کریں جس سے مخلوق خدا کے کسی بند ے کو فائدہ ہو۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے مایہ ناز کالم نویس عتیق صدیقی کی نئی کتاب
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
کھڑکیاں ابھی تک پردوں سے ڈھکی ہوئی تھیں
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
میلوں پے پھیلی ہوئی تنہائی
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
نیپال میں ہمارے سفیر پشاور کے تھے
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو