پشاورکابجٹ

کیپٹل میٹرو پولیٹن گورنمنٹ پشاور کا دوسرا بجٹ پیش کیا گیا ہے بجٹ پیش کرتے ہوئے مئیرحاجی زبیر علی نے بجاطورپرشکوہ کیا کہ انتخابات کے بعد مقامی حکومتوں کو اختیارات اورفنڈدینے میں لیت ولعل سے کام لیا گیا لوکل گورنمنٹ کے قانون میں ترمیم کرکے منتخب نمائندوں کے اختیارات بیوروکریسی کی تحویل میں دے دئیے گئے کسی سیاستدان کی ہربات سے اتفاق نہیں کیا جاسکتااس کے باوجود مئیر پشاور کی اس بات سے سوفیصد اتفاق کی گنجائش موجود ہے حکومت نے لوکل گورنمنٹ کے انتخابات کے بعد بنیادی اداروں اور کونسلوں کو آنہ پائی اور دھیلے کا فنڈ جاری نہیں کیا سوال یقینااٹھتاہے کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟انتخابات کے بعد یہ تیسرابجٹ ہونا چاہیے تھا لیکن اختیارات کی کھینچاتانی میں 3 سال بیت گئے یہ بات بارباردہرانے کے قابل ہے اور باربار دہرائی جاتی ہے کہ وطن عزیز پاکستان میں لوکل گورنمنٹ کو صرف مارشل لاءکے ادوارمیں اختیارات ملے،سیاسی،جمہوری اور منتخب حکومتوں نے مکمل طور پر لوکل گورنمنٹ کواختیارات نہیں دئیے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سینیٹرز،ایم این اے اورایم پی اے اکثر ویلیج کونسل ،نیبرہڈ کونسل کے چیئرمین کو اپنا کم از کم حریف سمجھتے ہیں ضلع کونسل اور یونین کونسل اس وجہ سے ختم کی گئیں ‘ جب میڈیا محدود تھاہم لوگ کسی بڑے شہرکے مشہوربک سٹال پرجاکر واشنگٹن‘ لندن‘ پیرس‘ٹوکیو اور بیجنگ کے انگریزی اخبارات لیتے تھے اب ورلڈ وائڈ ویب کی مدد سے دنیا بھر کے اخبارات ہمارے گھروں میں دستیاب ہیں ان اخبارات میں عوامی مسائل،عوامی خدمات اور سرکاری منصوبوں کے حوالے سے وفاقی حکومت ‘ وزیراعظم ‘ وزیرخزانہ یاکابینہ کا ذکر کبھی نہیں آتا‘ ہر کام لوکل گورنمنٹ کرتی ہے ہرمنصوبے میں لوکل گورنمنٹ کانام آتا ہے برطانیہ‘ چین‘ جاپان اور کوریا میں بڑے شہروں کی میٹروپولیٹن کارپوریشنیں اپنے کارخانے چلاتی ہیں ان کے سمندری جہازہوتے ہیں انکی اپنی فضائی جہازران کمپنیاں ہوتی ہیں‘ بعض عدالتیں بھی مقامی حکومت کی ہوتی ہیں‘ سکول ‘ کالج‘ہسپتال بھی مقامی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں ہوتے ہیں‘عوام کے تمام مسائل کاحل لوکل گورنمنٹ کے پاس ہوتا ہے اسلئے میڈیا میں وفاقی حکومت کا کوئی ذکر نہیں ہوتا‘وزیراعظم،اراکین پارلیمنٹ اور کابینہ کانام کوئی نہیں لیتا‘ہمارے ہاں بدقسمتی سے الٹی گنگا بہتی ہے لوکل گورنمنٹ کو پھلتا پھولتادیکھنے کےلئے ہم کو مارشل لاءکا انتظارکرنا پڑتا ہے‘سابقہ اسمبلیوں کے ٹوٹتے اور نئی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد ہونے سے پہلے مقامی حکومتوں کےلئے فضاسازگار ہوگئی ہے جن حلقوں کے مئیر اور چیئرمین استعفیٰ دینے پر غور کر رہے تھے وہ اپنے فیصلے واپس لے رہے ہیں جن حلقوں کے مئیر اور چیئرمین بیرون ملک چلے گئے تھے وہ بھی واپس آنے پر سوچ بچار کررہے ہیں پشاور میٹروپولیٹن کارپوریشن کے بجٹ کا حجم 5 ارب 14کروڑ روپے ہے نیبرہڈکونسل کو 27 لاکھ‘ اقلیتی ارکان کو10لاکھ فی ممبر،کسان کونسلر کو10لاکھ اور خاتون کونسلرکو5لاکھ روپے ملیںگے فنڈ کا50فیصد ترقیاتی سکیموں پرجبکہ بقیہ 50فیصد فلاحی کاموں پر خرچ ہوگا،مستحق طلبا اور طالبات کو وظائف دئیے جائینگے ‘ معذوروں کا خیال رکھا جائے گا نوجوانوں کوکھیلوں کی سہولیات دی جائینگی پشاورکابجٹ آنے کے بعد اُمید پیداہوگئی ہے کہ صوبے کے دوسری کونسلوں کوبھی فنڈملیں گے۔