پیسے درختوں پر نہیں اگتے

یوں تو باجوڑ سے لے کر جنوبی وزیرستان تک پھیلی ہوئی قبائلی علاقے کی ساری کی ساری پٹی جس میں باجوڑ مہمند خیبر کرم اورکزئی‘ شمالی اور جنوبی وزیرستان کے علاقے شامل ہیں ایک منفرد قسم کا  جغرافیایی محل وقوع ہے کہ  جس کی مثال دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی پر وزیرستان کا جغرافیائی محل وقوع پھر  ان سب ہی  سے  مختلف اور جدا قسم کا ہے  اس کے بارے میں بنوں میں تعینات ایک فرنگی بریگیڈئرنے1902 میں   لکھا تھا  کہ کوئی بھی حملہ آ ور وزیرستان میں عسکری کاروائی کرنے سے پہلے دو مرتبہ ضرور سوچے اور حملہ کرنے   سے پہلے اپنے فرار کا رستہ  ضرور متعین کر لے کیونکہ جلد یا بدیر ایک دن اس علاقے سے پسپا ہو کر اسے  انخلا کرنا ہو گا اور اس کی پسپاہی بندوقوں کی گولیوں کی بوچھاڑ میں ہوگی وقت نے کئی کئی مرتبہ اس فرنگی بریگیڈز کے اس بیانیہ کو درست ثابت کیا ہے فرنگیوں نے اس قبائلی پٹی میں امور مملکت چلانے کیلے ایک بالواسطہ indirect گورننس کا نظام وضع کیا تھا جس میں باجوڑ سے لے کر جنوبی وزیرستان تک ہر ٹرائبل ایجنسی میں ایک پولیٹکل ایجنٹ مقرر کیا جاتاجو ریونیو ڈسٹرکٹس میں تعنیات ڈپٹی کمشنر کے ہم پلہ ہوتا پرامن عامہ کے نفاذ کے لئے وہ اپنی ایجنسی کے سفید ریش اکابرین کے تعاون سے روزمرہ کے انتظامی امور نبھاتا ان قبائلی عمائدین کو ملک بھی کہا جاتا‘ مشر بھی اور سردار بھی۔ اس بالواسطہ نظام میں ہر قبیلہ اپنے اپنے علاقے میں امن عامہ قائم رکھنے کے واسطے پولٹیکل ایجنٹ کو جواب دہ ہوتا انہی قبائلی عمائدین کی معاونت سے پولٹیکل ایجنٹ قبائلیوں کے درمیان دیوانی یا فوجداری مقدمات کے فیصلے جرگوں کے توسط سے کرواتا‘ اس مقصدکے لئے فرنگیوں نے 1902 میں فرانٹیر کرائمز ریگولیشن یعنی ایف سی آر کی کتابی شکل میں قبائلی علاقوں میں رائج عدالتی اور انتظامی امور کو codify  کر دیا فرنگیوں نے قبائلیوں میں سے ہی ہر ٹرائبل ایجنسی میں سکیورٹی کے مقاصد کے واسطے ایک فورس بھی بنا دی کہ جو خاصہ دار فورس  کے نام سے جانی جاتی تھی اور جو پولٹیکل ایجنٹ کے ڈسپوزل پر ہوتی اس کے ساتھ ساتھ ہر قبائلی علاقے میں فرانٹیئر کور کے نام سے ایک دوسری فورس بھی تعینات کر دی گئی جسے عرف عام میں ملیشیا کہا جاتا اور اس میں جو افراد بھرتی کئے جاتے ان کا بھی اکثر و  بیشتر قبائلی علاقے سے ہی تعلق  ہوتا‘1947میں جب پاکستان بنا تو حکومت پاکستان نے قبائلی علاقے کا نظم و نسق جس طریقے سے چل رہا تھا اس میں رتی بھر بھی تبدیلی نہ کی  اگر سابقہ فاٹا کا امن عامہ ریونیو ڈسٹرکٹس کے مقابلے میں بہتر تھا تو اس کی بنیادی وجہ وہ اجتماعی قبائلی علاقائی ذمہ داری کا کانسپٹ concept تھا کہ جس کے تحت پولٹیکل ایجنٹ وہاں کا انتظامی نظام چلایا کرتے تھے‘ وقت کا تقاضہ ہے کہ اس کے موجودہ نظام گورننس کو ری وزٹ کیا جائے اور جہاں جہاں کوئی سقم پایا جائے اس کا ازالہ کیا جائے۔ اس ملک سے محبت کرنے والا شاذہی کوئی ایسا باسی ہو گاکہ جو IMF کے پاکستان کو دئیے گئے اس پیغام سے اختلاف کرے کہ امیروں پر مزید ٹیکس لگائیں اور غریبوں کو بچائیں جب تک موٹی توندوں اور موٹی گردنوں والوں پر حصہ بقدر جثہ کے مطابق ٹیکس نہیں لگایا جائے گا ملک میں لکژری بڑی بڑی بھاری کم گاڑیوں کی امپورٹ بند نہ کی جائے گی ارباب بست و کشاد از خود سادگی اور قناعت نہیں اپنائیں گے اور تمام غیر ترقیاتی اخراجات بند نہیں کریں گے ملک کے خزانے میں اتنی رقم کبھی بھی جمع نہ ہو سکے گی کی جس سے اس ملک کے عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا جاسکے مرحوم غلام اسحاق خان کہا کرتے تھے پیسے درختوں پر نہیں اگتے ملک چلانے کے واسطے مخیر افراد سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ ہمارے اکثر قائدین کے قول و فعل میں تضاد ہے اور اسی تضاد کی وجہ سے اس ملک کے عوام ذہنی انتشار کا شکار ہیں ہم میں من حیث القوم اخلاقیات کا فقدان بھی ہے‘ہمیں اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔