سیاسی سرگرمیوں کا موثرپلیٹ فارم

اب جب کہ ملک میں عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے پاکستان ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان کو ٹی وی سکرین پر آ کر عوام الناس کو براہ راست خطاب کرنے کا موقع فراہم کردیں تو یہ بہت اچھی بات ہو گی‘ پی ٹی وی نے 1970 ء کے جنرل الیکشن سے پہلے تمام سیاسی پارٹیوں کے قائدین کو ٹی وی سکرین پر آ کر قوم سے براہ راست خطاب کرنے کا موقع فراہم کیا تھا اس دور میں تو خیر نجی ٹی وی چینلز کا وجود  نہ تھا بہتر ہوگا کہ ہر سیاسی پارٹی کا لیڈر اپنی تقریر میں  صرف ملک کو درپیش ایشوز پر ہی اپنے خیالات کا اظہار کرے اور قوم کو غیر مبہم الفاظ میں بتائے کہ اس کے پاس ان ایشوز کو حل کرنے کا کیا علاج ہے‘الیکشن مہم چلانے کے طریقہ کار کو بدلنے کی بھی اشد ضرورت ہے‘آج انفارمیشن ٹیکنالوجی سے ہر سیاسی پارٹی اس ضمن میں استفادہ کر سکتی ہے وہ نجی ٹیلیویژن چینلز سے ٹائم خرید کر عوام سے براہ راست مخاطب ہو سکتی ہے اس طریقہ کار سے ایک نہایت ہی محفوظ اور تہذیب یافتہ طریقہ سے وہ نہایت موثر انداز میں عوام تک اپنا پیغام پہنچا سکتی ہے پاکستان  جیسے ملک میں جہاں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی بام عروج پر ہے وہاں کھلے عام جلسے اور جلوس خطرے سے خالی نہیں ہوتے  لہٰذا تمام سیاسی قائدین کا فرض  بنتا ہے کہ وہ الیکشن مہم میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا بھر پور استعمال کریں  جو حکومت بھی اس الیکشن کو جیت کر اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے گی وہ پھولوں کے  بجائے  کانٹوں کی سیج پر بیھٹے گی کیونکہ وطن عزیز جس معاشی دلدل میں ڈوب رہا ہے اسے باہر نکالنا کوئی خالہ جی کا گھر نہ ہوگا یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پارلیمانی جمہوریت صرف  ان  ممالک میں کامیابی سے  چلتی ہے کہ جہاں ناخواندگی کم ہو اور  جہاں دو یا زیادہ سے زیادہ تین سیاسی پارٹیاں ہوں اپنے ہاں تو سیاسی پارٹیاں چوں چوں کا مربہ ہیں اس قسم کے سیاسی ماحول میں کہ جہاں لاتعداد سیاسی جماعتیں ہوں اور آزاد امیدواروں کی بھی کوئی کمی نہ ہو وہاں ہارس ٹریڈنگ اور دوسری کئی سیاسی قباحتیں جنم لے لیتی ہیں اگر الیکشن سے پیشتر انتخابی اصلاحات ہو جاتیں تو بہتر تھا۔ سانپ کا ڈسا رسی سے بھی ڈرتا ہے اس ملک میں الیکشن کی تاریخ کا ٹریک ریکارڈبہت خراب ہے عام آدمی کا موجودہ الیکشن کے نظام سے اعتبار اٹھا ہوا ہے‘محبان وطن کو یہ غم بھی کھائے جا رہا ہے کہ اگر الیکشن میں ہارنے والی پارٹی نے میں نہ مانوں میں نہ مانوں  اور دھاندلی دھاندلی کی رٹ لگا دی اور وہ  سڑکوں پر نکل آئے تو کیا وطن عزیز ایک مرتبہ پھر سیاسی انتشار کا شکار نہیں ہو جائے گا۔  اب آتے ہیں بعض اہم قومی اور عالمی معاملات کی طرف‘ پاکستان میں مقیم غیر قانونی طور پر مقیم افغانیوں کی وطن واپسی کی جو 31 دسمبر کی تاریخ مقرر کی گئی ہے‘اس میں بالکل توسیع نہ کی جائے اسی طرح پاک افغان سرحد پر خاردار تار کی خلاف ورزی پر مربوط پالیسی  بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے‘ افسوس کے ساتھ  کہنا پڑتا ہے کہ افغانیوں کے پاکستان آ نے جانے کے بارے میں کوئی ایسا امیگریشن سسٹم وضع کرنے میں کوئی پیش رفت نظر آئی ہے کہ جس کے تحت صرف ان افغانیوں کو پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت ہو کہ جن کے پاس پاکستان آنے کا ویزا ہو اور اس میں ان شہروں کے نام بھی درج ہوں کہ جن میں ان کو جانے کی اجازت ہو اور یہ کہ ایسا میکنزم بھی طے کیا جائے کہ پاکستانی حکام کو پتہ چل سکے کہ جو افغانی پاکستان آ یا تھا وہ ویزے کی معیاد ختم ہونے پر واپس افغانستان چلا گیا ہے‘ چین پاکستان کا آزمایا ہوا اور سدا بہار دوست ہے اور ان تمام چینی باشندوں کو فول پروف سکیورٹی فراہم کرنا ہمارا فرض ہے کہ جو پاکستان میں مختلف ترقیاتی منصوبوں میں کام کر رہے ہیں اس ضمن میں خصوصی طور پر سی پیک کے تحت جاری منصوبوں کا ذکر ضروری ہے کہ جن میں روڑے اٹکانے کیلئے امریکہ اور بھارت دونوں نے پاکستان کے خلاف سازشوں کا ایک جال بنا رکھا ہے صرف ایک ماہ کے اندر ملک سے 90ہزار سے زائد افراد کا روزگار کے واسطے بیرون ملک چلے جانا اس حقیقت کا غماز ہے کہ وطن عزیز میں بے روزگاری کس قدر پھیل چکی ہے اگر اسی رفتار سے افراد باہر جاتے رہے تو یہ  ملک  برین ڈرین کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔