پاکستان ریلویز ‘ دکھ بھری داستان 

 اب تو ڈر کے مارے مسافروں نے ریل میں سفر کرنا ہی چھوڑ دیا ہے آ ئے دن ہونے والے ریل حادثات سے مسافر خوف زدہ ہیں ہماری جنریشن کے لوگوں نے گزشتہ تیس برسوں میں اس سستے محفوظ اور خوشگوار ذریعہ آمد و رفت کا عروج و زوال دیکھا ہے 1970 ءتک سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا ہمیں اچھی طرح یاد ہے 1970 ءکی دہائی میں جاپان اور جرمنی سے ریل کاریں بھی منگوائی گئی تھیں جو 120 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے مختلف روٹس پر چلتی تھیں جیسا کہ لاہور‘ پنڈی ‘پشاور وغیرہ مسافروں کا ایک ہجوم ان میں سفر کرتا وقت کے ساتھ جب یہ ریل کاریں ختم ہوتی گئیں تو ان کی جگہ کوئی متبادل بندوبست نہ کیا گیا ایک ایسا دور بھی تھا کہ ہر ریل گاڑی کے ساتھ ڈائننگ کار کا ڈبہ بھی لگا دیا جاتا تھا جو گاڑی میں سفر کرنے والے مسافروں کو دوران سفر حفظان صحت کے معیار پر اترنے والی اشیائے خوردنی واجبی نرخ پر سپلئہی کرتا اور وہ کھانے پینے کی اشیا خریدنے کیلئے ریلوے سٹیشنوں پر اترنے
 کی زحمت سے بچے رہتے ہم نے صدر پاکستان وزیراعظم پاکستان گورنروں اور دیگر اعلیٰ مرتبت سرکاری حکام کو ریلوے میں سفر کرتے بھی دیکھا ان کے لئے ریل گاڑی میں علیحدہ ڈبہ لگا دیا جاتا جسے عرف عام میں سیلون کہتے ‘کہا یہ جاتا ہے کہ ریلوے نظام کو فیل کرنے میں روڈ ٹرانسپورٹ لابی بلکہ یوں کہیے روڈ ٹرانسپورٹ مافیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے جس سے تعلق رکھنے والے ایوان اقتدار میں کثیر تعداد میں جا پہنچے تھے کہ جہاں پر انہوں نے پوری کوشش کی کہ ملک کی سڑکوں پر ان کی بس سروسز اور ٹرک ہی بس زور و شور سے چلیں انہوں نے بھرپور کوشش کی کہ ریلوے کی پروموشن کی راہ میں زیادہ سے زیادہ روڑے اٹکائے جائیں اچھے وقتوں میں ریلوے کے ملازمین کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تھی جو اب گھٹ کر 60 ہزار رہ گئی ہے ناقص حکمت عملی کرپشن اور کک بیکس والے اربوں روپوں کے منصوبوں نے بھی ریلوے کو کنگال کر دیا اس طرح سیاسی طور پر لمبے ہاتھ رکھنے والوں نے اپنی اپنی روڈ ٹرانسپورٹ کی اجارہ داری قائم کرنے کے لئے ریل سروس کو ناکام کیا اور ساتھ ہی ساتھ ریلوے کی کروڑوں روپے کی مالیت کی اراضی بھی ہتھیا لی ‘ مال بردار ٹرینیں کسی بھی ملک کی ریلوے کی آمدنی کا بڑا وسیلہ ہوتی ہیں کسی دور میں کئی فریٹ freight مال گاڑیاں بھی چلتی تھیں اب ان کی تعداد دس سے بھی کم رہ گئی ہے ریلوے کی نشاة ثانیہ کے واسطے ارباب اقتدار کو درج ذیل فوری اقدامات
 اٹھانے ہوں گے ‘ریلوے ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا قیام ضروری ہے جو فوراًکروڑوں روپے مالیت کی ریلوے کی زمین قبضہ مافیا سے چھڑائے‘حکومت کو ابتداءمیں ریلوے کی بحالی کے واسطے 100 ارب کا بیل آﺅٹ پیکج دینا پڑے گا یہ کڑوا گھونٹ اسے پینا ہوگا کہ اس میں ملک کے عام آدمی کی بھلائی ہے۔ رسالپور فیکٹری میں نئے انجنز کی تیاری اور پرانے انجنز کی مرمت کا کام فوری طور پر شروع کیا جائے‘مال و اسباب کی نقل و حمل کے لئے پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ شکنی کرناضروری ہے اور یہ کام ریلوے خود کرے اس مقصد کے لئے ماضی کی طرح مال گاڑیوں کو چلایا جائے‘پاکستان ریلوے کا جو منصوبہ تاخیر کا شکار ہے وہ ایم ایل ون ہے یہ چین کے ساتھ اشتراک عمل میں پروان چڑھے گا اگر یہ منصوبہ سیاست کی بھینٹ نہ چڑھا تو یہ پاکستان ریلوے کے لئے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے اس کا روٹ کراچی تا پشاور ہو گا اور اس کا ریلوے ٹریک سندھ اور پنجاب سے بھی گزرے گا۔ان ابتدائی کلمات کے بعد چند دیگر اہم غور طلب امور کا ذکر بے جا نہ ہوگا‘یہ بات ازحد تشویش ناک ہے کہ ملک میں دو کروڑ 70 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں‘جس طرح برطانیہ میں سگریٹ پر پابندی عائد کئے جانے کا امکان ہے ہمارے ارباب بست و کشاد کو بھی وطن عزیز میں اسی طرح کا کوئی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ سگریٹ نوشی نئی نسل کو خصوصاً تباہ کر رہی ہے‘ امریکہ کا یہ فیصلہ کہ وہ یوکرائن کو روسی اہداف کو نشانہ بنانے والے جدید میزائل فراہم کرے گا‘ جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف بات ہے اور اس سے روس اور یوکرائن میں جنگ شدید صورت اختیار کر سکتی ہے۔