آذر بائیجان کے راستے تجارتی مواقع 

آرمی چیف کا یہ بیان پتھر کی لکیر ہے کہ اسلام میں انتہا پسندی کی کوئی گنجائش نہیں ہے وہ امن اور آ شتی کا مذہب ہے یہ بات اگلے روز انہوں نے چرچ آف پاکستان کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران کہی جو سیاسی مبصرین یہ کہتے ہیں کہ ہمارا آ وے کا آ وا ہی بگڑا ہوا ہے وہ کوئی زیادہ مبالغہ آرائی کے مرتکب نہیں ہو تے اس ملک میں جتنی انسانی زندگی ارزان ہوگئی ہے وہ کسی اور ملک میں نہیں ہے اب دیکھیں ناں یہ جو حال ہی میں جعلی انجکشنوں سے ملک میں کئی لوگوں کی بینائی متاثر ہوئی ہے کیا اس جرم میں ملوث افراد معافی کے قابل ہیں؟یہ جو روزانہ ہماری سڑکوں پر ٹریفک حادثات میں سینکڑوں لوگ لقمہ اجل ہو رہے ہیں ان میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا کیوں نہیں دی جا رہی‘ اگلے روز ایک منچلے نے ایک بہت ہی اچھی تجویز دی ہے اس نے کہا ہے کہ ہیلمٹ کے بغیر موٹر سائیکلیں چلانے والے جواں سال لڑکوں کو کچھ نہ کہا جائے بس ان کی جگہ ان کے والدین کو پولیس تھانے میں دو تین راتیں رکھے کیونکہ یہ ان کا قصور ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بغیر ہیلمٹ پہنے موٹر سائیکل چلانے سے کیوں نہیں روکتے کہ ہیلمٹ کے استعمال نہ کرنے سے روزانہ کئی افراد موت کے منہ میں جا رہے ہیں اور یا پھر زندگی بھر کے لئے معذور ہو رہے ہیں ‘بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل چلانے والے ملزم کا تاحیات ڈرائیونگ لائسنس بھی کینسل کر دیا جائے اور اس کا موٹر سائیکل بھی بحق سرکار ضبط کر دیا جائے اس بابت اگر کسی
 قانون سازی کی ضرورت ہو تو ہمارے اراکین اسمبلی آخر کس مرض کی دوا ہیں ٹریفک قواعد کے اطلاق میں حد درجہ نرمی کی جا رہی ہے اس کی وجہ سے ملک بھر میں ٹریفک حادثات میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔ آج کل بازار میں اوپن مارکیٹ سے اشیائے خوردنی خریدنے سے پہلے ہر انسان دو مرتبہ سوچتا ہے کہ کہیں ان میں ملاوٹ تو نہیں ہے کہیں مردہ یا بیمار مویشیوں یا مرغیوں کا گوشت تو اس پر فروخت نہیں کیا جارہا مختصر یہ کہ ہر طرف گڈ گورننس کا فقدان نظر آ رہا ہے ‘سینٹر رضا ربانی کا یہ کہنا اپنی جگہ بجا ہے کہ آئی ایم ایف ہر اس ملک کا نو آ بادیاتی آقا بن جاتا ہے کہ جسے وہ قرضے دیتا ہے قرض لینے والے ملک کی دنیا میں سیاسی وقعت ختم ہو جاتی ہے ‘وقت آ چکا ہے کہ ہم چین کی طرح اپنے پاﺅں اتنے ہی پھیلائیں کہ جتنی ہماری چادر ہو ورنہ ہم ہمیشہ بھکاریوں کی طرح ہاتھ میں کچکول لے کر دنیا میں در بدر پھرتے رہیں گے آخر ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے بھی تو
 1992 سے آئی ایم ایف سے قرضے لینے بند کر دئیے تھے ہم کیوں ایسا نہیں کر سکے۔ اگر پاکستان کو ریلوے ٹریک کے ذریعے آذر بائیجان سے لنک کر دیا جائے تو اس راستے سے پاکستان روس اور دیگر یورپی ممالک کے ساتھ تجارت کر سکتا ہے ریلوے کے ذریعے یہ لنک آ ذربائجان سے فضائی لنک کے مقابلے میں دونوں ممالک کے لئے معاشی طور پر زیادہ بہتر ثابت ہو سکتا ہے ۔میاں نواز شریف کی 21 اکتوبر کو وطن واپسی کے پروگرام کو ان کے پارٹی کے اراکین زیادہ سے زیادہ موثر بنانے کیلئے کافی تگ و دو کر رہے ہیں پر اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا لاہور کے باسی 21 اکتوبر کو لاہور ائر پورٹ اسی تعداد میں جائیں گے کہ جتنی تعداد میں وہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کے موقع پر 1986میں نکلے تھے جب وہ دو سال کی جلاوطنی کے بعد وطن واپس آئی تھیں ۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے نئی سیاسی جماعت کے قیام کا جو اشارہ دیا ہو سکتا ہے اس ملک کے کئی لوگ اس سے سو فیصد اتفاق نہ کریں کیونکہ نئی سیاسی جماعت بنانا کوئی خالہ جی کا گھر تھوڑی ہے اس کے لئے سالوں سال سیاسی ہوم ورک کرنا پڑتا ہے اور قوم کو ذہنی طور پر ٹھوس وجوہات سے باور کرانا پڑتا ہے کہ نئی سیاسی پارٹی کی آخر ملک کو کیوں ضرورت ہے اس ضمن میں گزشتہ پچاس برسوں میں وطن عزیز میں کئی سیاست دانوں نے نئی سیاسی پارٹیاں تشکیل دیں پر ایک آدھ کے علاوہ ان میں کوئی بھی پروان نہ چڑھ سکی ۔