باعث افتخار قومی ریاستی ادارے‘وقت کی ضرورت


باعث افتخار قومی ریاستی ادارے‘وقت کی ضرورت کسی بھی ملک میں اگر قومی ریاستی ادارے یعنی سول سروس پولیس کے اہلکار دیانتدار فرض شناس اپنے اپنے پیشے میں ماہر اور عوام دوست نہ ہوں گے تو کوئی بھی برسر اقتدار حکومت ڈلیور نہیں کر پائے گی کیونکہ مندرجہ بالا ریاستی اداروں کا روزانہ کی بنیادوں پر ملک کے عام آ دمی سے براہ راست واسطہ پڑتا رہتا ہے یہ بیوروکریسی ہی ہوتی ہے جو برسر اقتدار پارٹی کے منشور کو عملی جامہ پہناتی ہے اگر اس کی کارکردگی تسلی بخش ہوگی تو عوام کے دلوں میں حکومت وقت گھر بنا لے گی اس لئے ضروری ہے کہ ان اداروں میں جواہلکار بھی بھرتی کئے جائیں۔ وہ اعلیٰ اخلاقی اقدار اور ارفع خاصیتوں کے مالک ہوں‘ پر یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہو سکتا ہے اگر ان کو چننے والے یعنی ان کا انتخاب کرنے والے افراد بھی اعلیٰ صفات کے مالک ہوں ‘سول سروس اور پولیس کو فیڈرل پبلک سروس کمیشن ایک اوپن تحریری امتحان اور پھر اس میں کامیاب ہو جانے کی صورت میں امیدواروں کو ایک انٹرویو میں ان کی کارکردگی کی بنیاد پر چنتا ہے اس تمہید کا مقصد یہ ہے کہ ملک کے مندرجہ بالا کلیدی قومی ریاستی اداروں میں بھرتی کے نظام میں از حد احتیاط لازم ہے تاکہ معاشرے کے ہر لحاظ سے بہترین لوگ ان کے مختلف مناصب پر فائز ہوں بھلے وہ جس اداے میں بھی ہوں‘ وہ اسسٹنٹ کمشنرز ہوں یا ایس پی پولیس جس طرح عوام کا فرض ہے کہ وہ مقننہ کیلئے ووٹ کے ذریعے نہایت ہی اچھی عمومی شہرت رکھنے والوں کا الیکشن میں انتخاب کریں بالکل اسی طرح پبلک سروس کمشنز کے ممبران کی بھی ذمہ داری ہے کہ جن افراد کو وہ سول سروس پولیس یا دیگر سروسز کے لئے چنیں وہ ہر لحاظ سے معاشرے کے بہترین افراد ہوں ان کے چناﺅ میں سیاسی سفارش یا کسی اور وجہ کو ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے اگر دیانتدار افراد مندرجہ بالا اداروں میں تعنیات ہوں گے تو ہر حکومت اپنے منشور پر سو فیصد عمل کر پائے گی‘ دیانتدار افسران ہر حکومت کیلئے باعث افتخار ثابت ہوتے ہیں کاش کہ یہ چھوٹی سی بات ہمارے زعماءکی سمجھ میں آ جائے‘ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ بعض حکمران سیاسی بنیادوں پر کلیدی انتظامی مناصب پر سفارشی افسران لگا تو دیتے ہیں پر وہ ان کی حکومت کیلئے باعث افتخار ہونے کے بجائے باعث زحمت ہو جاتے ہیں وہ خود بھی عوامی قہر کا نشانہ بنتے ہیں اور حکومت کیلئے بھی باعث ندامت۔ ایک عرصے تک سابقہ فاٹا کے علاقے کو مفت میں بدنام کیا جاتا رہا کہ وہاں اسلحہ کا انبار ہے حالانکہ نہ ماضی میں اور نہ آج فاٹا میں اسلحہ کا اتنا انبار ہے کہ جتنا ریونیو ڈسٹرکٹس میں تھا یا ہے ‘پر پولیس کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا کہ وہ ریونیو ڈسٹرکٹس میں اسلحہ کے پھیلا ﺅکو کنٹرول کرنے میں ناکامی اور ریونیو ڈسٹرکٹس میں امن عامہ کی ابتر حالت کا تمام ملبہ فاٹا پر یہ کہہ کر ڈالتی آئی ہے کہ فاٹا میں اسلحہ کے انبار کی وجہ سے ریونیو ڈسٹرکٹس کا امن عامہ خراب ہوتا ہے اب جو ہم روزانہ ٹیلی ویژن کی سکرین پر پنجاب اور سندھ کے کچے علاقوں میں اسلحہ کے زور پر ڈاکو راج دیکھتے ہیں اور ان کا موازنہ سابقہ فاٹا میں اسلحہ کی مبینہ موجودگی کے الزام سے کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ کچے کے علاقے میں جتنا اسلحہ پایا گیا ہے اس کے مقابلے میں تو فاٹا میں اسلحہ کی مبنیہ موجودگی عشر عشیر بھی نہ تھی اور نہ اب ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز کی امسال دسمبر میں نجکاری کی جارہی ہے‘ پی آئی اے کو پاکستان کے سابق ائر چیفس ائر مارشل اصغراور نورخان نے بڑی محنت کے بعد دنیا کی ایک نہایت ہی ممتاز ائر لائنز بنا دیا تھااگر ہماری قومی ائر لائنز کو ان جیسے سر براہ تواتر سے ملتے رہتے تو آج وہ اتنی مخدوش حالت کا شکار کبھی نہ ہوتی ۔