گھر اپنا ہے راستے پرائے ہیں

جب بھی میں اس گلی سے گزرتی تھی خود رو گھاس اور جنگلی پودے ہی ہرطرف نظر آتے تھے اور جنگلی پودے تو پھیل کر اپنے راستے ایسے بناتے ہیں کہ جنگل کے کسی حصے کا گمان ہوتا ہے کبھی بھی میرا دل کرتا میں کوئی گارڈننگ کا ٹول لے کر خود صفائی کا کام شروع کردوں قطار درقطار گلی کے گھر بنگلہ نما ہیں اور ان گھروں کے مکین بھی بڑے عہدوں پر فائز ہیں ہر کوئی اپنی گاڑی پورچ سے نکالتا ہے اوران جنگل نما حصوں سے گزار کے بازار کی طرف چلا جاتا ہے جیسے یہ گلی یہ راستہ کسی کا اپنا نہیں ہے بس یہ گھر اپنا ہے اور راستے پرائے ہیں لیکن آج جب اسی گلی میں پہنچی تو مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا صاف ستھری‘ جنگل کے خود رو پودے کٹے ہوئے‘ راستہ صاف‘ گلی سے جھاڑو لگا ہوا‘ یہ بات مجھے حیران کر گئی اور جستجو بھی دے گئی کہ آخر کیا ہوا ایسا کہ مکینوں کو راستوں کی اپنائیت کا احساس ہو ہی گیا‘ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ایک گھر گلی کے آخر میں ایک فیملی نے دو دن پہلے ہی خریدا ہے اور انہوں نے اس پوری گلی کو صاف ستھرا کروانے کیلئے اجرت پر مزدور لگائے ہیں اور اب گلی کی ہیئت ہی بدل گئی ہے حیرانگی ہوئی کہ ابھی تک مکینوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنے حصے کی اچھائی کو جانتے ہی نہیں عمل کرکے بھی دکھاتے ہیں دل چاہا اس شخص کا شکریہ ادا کروں لیکن معاشرتی طور پر پابندیوں کے باعث ایسا نہ کر سکی نہ جانے گلی کے تمام مکینوں نے اس شخص کا شکریہ ادا کیا ہے یا نہیں‘ لیکن ضرور کرنا چاہئے ہم سب کسی اچھے کام کے بدلے میں صرف منہ سے شکریہ کا لفظ بھی کہتے ہوئے اپنے اوپر بوجھ محسوس کرتے ہیں ‘کاش وہ گلی اب ایسی ہی صاف رہے بلکہ یہ صرف اسی شخص کی ذمہ داری نہ بنی رہے باقی مکین بھی باری باری اپنا حصہ ڈالتے رہیں گلی کا یہ کام دیکھتے ہوئے مجھے بارہا یہ خیال آتا رہا کہ ہم کتنی آسانی سے اپنے گلی محلے سکول دکانوں اور بازاروں کے کام حکومتوں پر ڈالنے کے ماہر بن چکے ہیں مہذب معاشروں میں عوام کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں‘ اپنی گلی کو صاف کرنا ہر شخص کا اولین فرض ہونا چاہئے اپنے بچوں کو کھا پی کر پارکس اور گلیوں میں کوڑا پھینکنے سے منع کرنے کا کام اور سرزنش کرنے کا فرض کون ادا کرے گا ڈسٹ بن سامنے نظر آرہا ہے لیکن گند پارک میں پھیلا ہوا ہے اور یہ کام پڑھے لکھے لوگ کر رہے ہیں میں ایک اور ایسے شخص کو جانتی ہوں جو فجر کی نماز پڑھنے کے بعد اپنی پوری لمبی گلی سے کوڑا کرکٹ اٹھا کر ڈبے میں ڈالتا ہے شاید لوگ اسکو خبطی سمجھتے ہوں جیسے کہ ہماری معاشرتی عادات بن چکی ہیں ہر اچھا کام کرنے والوں کو ہم اپنے مذاق کا نشانہ بناتے ہیں لیکن یہ لوگ رب کی ان مخلوق میں شامل ہیں جو صفائی نصف ایمان کے جذبے کے تحت کرتے ہیں آپ کو ایسے لوگ دفاتر میں اداروں میں‘ دکانوں میں مارکیٹوں میںضرور نظرآئینگے جو دنیا والوں کیلئے آسانیاں پیدا کرتے ہیں ایسی آسانیاں کہ آپ حیران ہو کر دیکھتے ہیں کہ میرا کام اتنا جلدی ہوگیا کوئی مشکل راہ میں نہیں آئی اور آسانی پیدا ہوگئی ہم جہاں جہاں بھی بیٹھے ہیں ہم اپنے کام کے کرنے کیلئے کسی کے کہنے یا کسی کی سفارش کے کیوں منتظر ہیں بس ہمیں جلدی سے وہ کام کر دینا چاہئے اس کیلئے کسی رہنما لیڈر اور اداروں کے سربراہوں کی ضرورت نہیں جس سیٹ پر آپ بیٹھے ہیں اور آپ کو اختیار دے دیا گیا ہے تو پھر اپنے اختیار کے دائرے میں سائل کا سوال پورا کردیں میں جب بھی نئی کتاب لکھتی ہوں مجھے آئی ایس بی این نمبر کی ضرورت پڑتی ہے اور میں نیشنل لائبریری اسلام آباد اس نمبر کو حاصل کرنے کیلئے جاتی ہوں‘ وہاں سیٹ پر ایک افسر ہے جس کا کام ہی نیشنل لائبریری کی جانب سے نمبر الاٹ کرنا ہوتا ہے اور وہ اس کام کو کبھی غیر ضروری طور پر بڑھاوا نہیں دیتا ضروری معلومات کے بعد وہ نمبر رجسٹر کرکے الاٹ کر دیتا ہے اگر ہر انسان اپنی کرسی پر بیٹھ کر اپنے حصے کا کام مقررہ وقت میں بغیر احسان جتائے کر دیتا ہے تو یہ آسانی پھول بکھیرتی ہوئی اور خوشبوئیں پھیلاتی ہوئی گھروں کے اندر تک جاتی ہی رہے گی وہ لوگ جو میرے کام کے کرنے کیلئے کسی کی آمد کے منتظر رہتے ہیں کسی کی سفارش کے بغیر کام کرنا پسند نہیں کرتے وہ یہ بات جان لیں کہ ایسا کرکے وہ معاشرے میں کام کرنے کے عمل میں رکاوٹ پیداکرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں اور پھر میرا تو یہ ایمان کی حد تک یقین ہے کہ آپ خود اگر آسانی پیدا کرتے ہیں تو رب اپنے غیب کے راستے آپ پر کھول دیتا ہے ایک دفعہ ایک گلی کی تصویر دیکھی تھی کہ ایک شخص نے اپنے گھر کی دہلیز پر گملوں میں پھول بیلیں رکھیں اور پوری گلی کو اس بات کی ترغیب دلائی کہ اس طرح ہماری گلی پھولوں کی گلی کہلائی جا سکتی ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ گلی صاف ستھری بھی ہو گئی اور گھر کا بیرونی حصہ پودوں بیلوں اور گملوں سے مزین ہوگیا‘ دراصل ہر انسان انفرادی طورپر اپنے حصے کا کام کرے اور اس اچھے کام کی اپنے ساتھیوں‘ ہمسایوں کو بھی ترغیب دے تو ہمارے کوڑے سے بھرے ہوئے گلیاں بازار صاف ستھرے ہو جائیں‘ اصلاح کے یہ چھوٹے اور خوبصورت کام ہمیں اپنے ہاتھ میں لے لینا چاہئیں کہ نہ صرف ہمارے گھر اندرسے صاف ہوں ہمارے بیرون علاقے بھی صاف ستھرے ہوں اس طرح ہمارے دل اور ذہن پر بھی اچھے اثرات پڑینگے بلکہ ہمارے زیر سایہ پلنے والے ہمارے بچے بہت خوشگوار عادات لے کر یہ روش پائیںگے۔