ہمارے بلدیاتی اداروں کی کارکردگی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ کراچی جیسے ماڈرن شہر میں بھی سگ گزیدگی کے واقعات میں اضافہ ہو رہاہے جب کراچی کا یہ حال ہے تو ملک کے چھوٹے اور قدرے کم ترقی یافتہ شہروں کا اس ضمن میں جو حال ہو گااس کا اندازہ آ سانی سے لگایا جا سکتا ہے درجنوں کی تعداد میں آپ کو ہر شہر میں آوارہ پاگل کتے پھرتے نظر آتے ہیں جو بچوں بوڑھوں اور خواتین کو کاٹتے ہیں ماضی میں ہر میونسپل کمیٹی اور کارپوریشن نے ایک عملہ بھرتی کیا ہوتا تھا جس کی ڈیوٹی یہ تھی کہ وہ آوارہ کتوں کو ٹھکانے لگا تا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہماری اخلاقیات کا اب یہ عالم ہے کہ لاہور میں موٹر مکینک کے ہاتھوں ہمارے ایک ڈاکٹر صاحب گردوں کی پیوندکاری کرواتے رنگے ہاتھوں دھر لئے گئے ہیںماضی میں اس قسم کے جرم میں ملوث جو افراد پکڑے گئے ان کو کیفر کردار تک پہنچایا نہ گیا اگر اس قسم کے گھناﺅنے کاروبار میں ملوث افراد کو ماضی میں عبرتناک سزا دی جاتیتو شاید یہ واقعات آج نہ ہوتے ۔ان ابتدائی کلمات کے بعد چند اہم عالمی اور دیگر قومی امور کا ایک ہلکا سا جائزہ پیش خدمت ہے امریکہ کا یہ تازہ ترین فیصلہ کہ وہ یوکرائن کی امداد جاری رکھے گا روس اور یوکرائن کے درمیان جاری جنگ کو طویل کر سکتا ہے۔
عالمی مبصرین کو وطن عزیز میں ہونے والے عام انتخابات کی مانیٹرنگ کی دعوت کی شاید ہی کوئی سیاسی جماعت مخالفت کرے کیونکہ اس عمل سے الیکشن میں شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے گا۔روس سے ایک لاکھ ٹن خام تیل کی پہلی کھیپ پاکستان پہنچ گئی ہے امید ہے کہ اس سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں استحکام آئے گا۔ اگلے روز لندن میں سکھوں کا احتجاجی مظاہرہ ہواجس میں برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا گیاکہ برطانیہ سے بھارتی ہائی کمشنر کو بے دخل کیا جائے انہوں نے الزام لگایا ہے کہ بھارتی ایجنٹ انگلستان میں گوردواروں میں جاسوسی کرنے آتے ہیں۔ یہ امر افسوس ناک ہے کہ ایک طرف تو دنیا میں اگلے روز عدم تشدد کا عالمی دن منایا گیا تو دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جنگی جرائم کا سلسلہ جاری و ساری ہے ۔وطن
عزیز میں پہلے سے ہی سیاسی جماعتوں کی بھر مار ہے اس لئے سیاسی مبصرین نے مصطفےٰ نواز کھو کھر کے نئی پارٹی بنا نے کے اعلان پر حیرت کا اظہار کیا ہے ماضی میں اس ملک میں کئی سیاستدانوں نے نئی سیاسی پارٹیاں بنائیں پر ایک آدھ کو چھوڑ کر ان میں کوئی پروان نہ چڑھ سکی ‘نئی سیاسی پارٹی بنانے سے پہلے کافی بڑا ہوم ورک کرنا پڑتا ہے ملک کے چپے چپے میں ہم خیال افراد تلاش کرنے پڑتے ہیں اور عوام کو نئی پارٹی کے قیام کی طرف ذہنی طور پر راغب کرنا پڑتا ہے جس کے لئے وقت بھی درکار ہوتا ہے اور مخلص قسم کے پارٹی ورکرز بھی‘ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ وطن عزیز میں دائیں اور بائیں بازو کی ایک سے زیادہ سیاسی جماعتیں موجود ہیں جو وقتاً فوقتاً ایوان اقتدار کا حصہ بھی رہی ہیں پر انہوں نے اپنے اس منشور پر صدق دل سے عمل نہیں کیا کہ جس کی بنیاد پر انہوں نے اپنی پارٹیاں تشکیل دی تھیں جس سے عوام میں بجز مایوسی کے اور کچھ نہیں پھیلا اسی طرح وطن عزیز کی سیاست کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ الیکشن میں لاتعداد آزاد امیدوار بھی کامیاب ہو جاتے ہیں اور وہ پھر اس سیاسی جماعت کا ساتھ دیتے ہیں کہ جس کے اقتدار کے سنگھا سن پر بیٹھنے کا زیادہ چانس ہوتا ہے اور اسی وجہ سے اس ملک کی سیاست میں ہارس ٹریڈنگ جیسی قباعت نے جنم لیا۔