جوں جوں21 اکتوبر کی تاریخ نزدیک آ رہی لوگ قسم قسم کے سوالات اٹھا رہے ہیں کیا میاں نواز شریف کی پاکستان آمد کے فوراً بعد ان کے خلاف درج مقدمات کی کاروائی اسی جگہ سے شروع کی جائے گی کہ جس جگہ ضمانت پر لندن جانے کے وقت روک دی گئی تھی ‘ نواز لیگ کے رہنما تو یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ قانون کے سامنے پیش ہو کر مقابلہ کریں گے وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ میاں محمد نواز شریف اپنی ٹیم کے ساتھ ترقی کے سفر کو دوبارہ رواں دواں کریں گے ‘ پر بعض سیاسی حلقوں کو اب بھی شک ہے کہ شاید وہ نہ آ سکیں‘ بہر حال جتنے منہ اتنی باتیں‘ چند دنوں کی بات ہے خود بخود پتہ چل جائے گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ویسے اطلاعات کے مطابق نواز شریف بدستور دل کے مریض ہیں‘ سینے میں اب بھی درد رہتا ہے لندن اور پاکستان میں چیک اپ کی ضرورت ہے ‘اس سے تو یہ عندیہ ملتا ہے کہ خرابی صحت کی بنا پر شاید وہ الیکشن سے پہلے ہونے والی مہم میں بھرپور حصہ نہ لے سکیں اور انہیں چیک اپ کے واسطے وقتاً فوقتاً لندن بھی جانا پڑے ‘ سوشل میڈیا حد درجہ آزاد ہے اور وہ طرح طرح کے تجزیئے کر رہے ہیں سیاست دانوں کا گلہ ہے کہ صرف ان ہی کا احتساب کیوں ہوتا ہے دیگر ریاستی اداروں سے منسلک افراد کا احتساب کیوں نہیں ہوتا دوسرے ریاستی اداروں کے کرتا دھرتاﺅں کا موقف ہے کہ ان کے اداروں کے اندر اپنا خود احتسابی کا نظام موجود ہے اور قانون شکنی کرنے والوں کے خلاف وہ محکمانہ کاروائی کرتے رہتے ہیں یہ وطن عزیز میں بڑھتے ہوئے عوامی شعور کی نشانی ہے جو بعض سیاسی حلقوں سے موروثی سیاست پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں‘ سیاسی جماعتوں کے قائدین سے اب لوگ ببانگ دہل پوچھ رہے ہیں کہ کیا ان کو اپنی سیاسی پارٹی میں ایک بھی ایسا فرد نہیں ملتا کہ جو ان کے بعد ان کی پارٹی چلانے کا اہل ہو کہ وہ اپنے بھائی بیٹے یا بیٹی کو اپنا سیاسی جا نشین نامزد کر دیتے ہیں جیسے سیاسی پارٹی ان کی کوئی ذاتی جاگیر ہو ‘جس وقت جنرل مشرف کے دور حکومت میں جنرل نقوی کی زیر قیادت نیشنل ری کنسٹرکشن بیورونے ڈپٹی کمشنرکے ادارے کہ جو ضلع کا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ بھی ہوا کرتا تھا انتظامی اور عدالتی اختیارات محدود کئے تو کئی عوامی حلقوں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اس اقدام سے ملک کے امن عامہ ہر منفی اثر پڑے گا وقت نے ثابت کہ ان کے خدشات کس قدر درست تھے جب تک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کا ادارہ فعال تھا ہر ضلع کا نظم و نسق آج کے مقابلے میں بہتر تھا نہ صرف یہ کہ ضلع بھر میں موجود تمام لائنز ڈیپارٹمنٹس کے درمیان ڈپٹی کمشنر کوآرڈی نیشن کا کام سر انجام دیتا تھااور ضلعی پولیس کے ذریعے وہ ضلع میں امن عامہ لوکل گورنمنٹ اور لوکل اور سپیشل لاز کے اطلاق کا بھی خیال رکھتا تھا اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ وہ اپنے ضلع میں صوبائی حکومت کی طرف سے جاری ترقیاتی کاموں کی مانیٹرنگ کا کام بھی بخوبی سر انجام دیتا تھا وہ ایک غیر سیاسی موثر انتظامی ادارہ تھا اور جب تک حکومت وقت ڈپٹی کمشنرز کی تعیناتی صرف میرٹ کو مد نظر رکھ کر کرتی رہی اضلاع کا نظم و نسق مثالی تھا اس ادارے کے وجود کو ختم کرتے وقت عوام کو تاثر یہ دیا گیا کہ این آر بی کا devolution plan نچلی سطح پر عوام کیلئے ڈی سی والے پرانے نظام سے بہتر ثابت ہو گا پر ایسا ہوا نہیں‘ڈپٹی کمشنر کی عدم موجودگی سے ضلعی سطح پر آج انتظامی خلاءمحسوس کیا جا رہا ہے ۔
اشتہار
مقبول خبریں
پشاور کے پرانے اخبارات اور صحافی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سٹریٹ کرائمز کے تدارک کی ضرورت
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فرسودہ فائر بریگیڈ سسٹم
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
معیشت کی بحالی کے آثار
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
فوجداری اور ریونیو مقدمات
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
ممنوعہ بور کے اسلحہ سے گلو خلاصی
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکہ کی سیاسی پارٹیاں
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
امریکی پالیسی میں تبدیلی؟
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ
سموگ کا غلبہ
سید مظہر علی شاہ
سید مظہر علی شاہ