ڈپٹی کمشنر کوہاٹ کے دائرہ اختیار میں درہ آدم خیل کا علاقہ بھی شامل ہے کہ جسے وہ بطور پولیٹیکل ایجنٹ کوہاٹ فرنٹیر ریجن چلاتا ہے جس تاریخی واقعے کاہم اپنے آج کے کالم کے آغاز میں ذکر کر رہے ہیں وہ 1923 میں وقوع پذیرہوا تھا فرنگیوں کا دور حکومت تھا کوہاٹ میں ایک فرنگی افسر سے ایک رائفل چوری کر لی گئی تھی چوری کا الزام عجب خان آفریدی نامی ایک فرد پر لگا، جو درہ آدم خیل کا رہنے والا تھا فرنگی فوجیوں نے درہ آدم خیل کے ایک گاؤں میں واقع عجب خان آفریدی کے گھر کی تلاشی کے واسطے اس پر چھاپہ مارا دوران تلاشی گھر میں خواتین بھی موجود تھیں جب عجب خان کو اس چھاپے کا پتہ چلا تو اس نے بہت برا منایا اور یہ الزام لگایا کہ تلاشی کی وجہ سے اس کے گھر کی خواتین کی بے عزتی ہوئی ہے اور چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال ہوا ہے جس کا بدلہ وہ ضرور لے گا بدلہ لینے کے واسطے وہ کوہاٹ کنٹونمنٹ میں واقع ایک فرنگی فوجی افسر کے گھر کے اندر گھس گیااور اس کی بیٹی کو اغوا کر لیا اس واردات کے دوران افسر کی بیوی کی مزاحمت پر اس کا قتل ہو گیا مغوی لڑکی نے اپنی بر آمدگی کے بعد عجب خان کی بہت تعریف کی اور اپنے بیان میں بتایا کہ عجب خان نے اپنے گھر میں اس کو اپنی بہنوں کی طرح دیکھا اور رکھا یہ مغوی لڑکی جس کا نام مس ایلس تھا 1984 میں اپنی والدہ کی قبر دیکھنے کوہاٹ آئی تھی ان دنوں جنرل فضل حق خیبرپختونخوا کے گورنر تھے‘ جس واقعہ کاذکرہم نے اوپر کی سطور میں کیا ہے اس پر ایک اچھی خاصی فیچر فلم بن سکتی ہے ماضی میں ایک آدھ فلم اس موضوع پر ضرور بنی‘پر اس میں اس واقع کے تمام حقائق سے پردہ نہیں اٹھایا گیا اس ضمن میں ہم ایک اردو فیچر فلم کا ضرور ذکر کرنا چاہیں گے کہ جس میں لالہ سدھیر نے عجب خان کا کردار ادا کیا تھا اس فلم کو معروف ہدایت کار خلیل قیصر نے ڈائرکٹ کیا تھا اس فلم کے بڑے حصے کی شوٹنگ اگر درہ آدم خیل کے اطراف خصوصاً عجب خان کے گاؤں کے اندر کی جاتی کہ جو بہ آ سانی کی جا سکتی تھی تو یہ فلم حقیقت کے بہت قریب ہوتی عجب خان آفریدی کا انتقال
1961 میں 95 برس کی عمر میں ہوا۔ اس تاریخی قصے کے مختصر ذکر کے بعد اب ہم چند تازہ ترین قومی اور عالمی امور پر ایک سرسری نظر ڈالنا چاہیں گے‘حماس اور اسرائیل کے درمیان جس شدت سے جنگ چھڑ گئی ہے وہ کسی وقت بھی عالمگیر جنگ کی شکل اختیار کر سکتی ہے اب جب کہ تمام عالم اسلام میں اسرائیل کے خلاف نفرت کے جذبات اپنے عروج پر ہیں دیکھنا یہ ہو گا کہ ان حالات میں مسلم دنیا کے حکمران کونسی حکمت عملی اپناتے ہیں اس بات میں تو کوئی شک نہیں ہے کہ ہمیشہ کی طرح امریکہ فلسطین کے تنازعے میں اسرائیل کے پیچھے کھڑا ہے‘ امریکہ میں ایک عرصہ دراز سے کوئی فرد امریکہ کا صدر بننے کا سوچ بھی نہیں سکتا اگر امریکہ میں موجود یہودی سیاسی لابی اس کی پشت پر کھڑی نہ ہو امریکہ کی معیشت سیاست اور میڈیا پر یہودیوں کا غلبہ ہے دکھ کی بات ہے کہ کہنے کو تو تمام اسلامی ممالک نے اوآئی سی کے نام سے ایک ادارہ بنا رکھا ہے پر وہ حد درجہ غیر فعال غیر متحرک اور غیر موثر
ثابت ہوا ہے جب بھی کسی اسلامی ملک کو اسلام دشمن عناصر کسی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں تو اس ادارے کے کرتا دھرتا ممالک کے نمائندے کسی سیون سٹار ہوٹل میں جمع ہو کر اسرائیل کے خلاف اجلاس منعقد کر کے اس میں ایک مذمتی قرارداد پیش کر دیتے ہیں اور بس۔اس ادارے کے منہ میں دانت نہیں ہیں لہٰذا اس کی کسی قرارداد کو اسرائیل نے کبھی بھی سنجیدہ نہیں لیا عرب ممالک کے پاس تیل کی شکل میں ایک مضبوط ہتھیار موجود تھا جو اس نے کبھی بھی موثر طریقے سے اسرائیل اور اس کے حمایتی ممالک کے خلاف استعمال نہیں کیا۔جہاں تک پاکستانی میں غیر قانونی طور پر مقیم افغانیوں کی وطن واپسی کا تعلق ہے یہ اقوام متحدہ کے متعلقہ ادارے کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس ضمن میں پاکستان کی مالی اور سیاسی معاونت کرے‘حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر سختی سے قائم و دائم رہے کیونکہ اس معاملے کا براہ راست تعلق ملک کی بقاء کے ساتھ ہے وطن عزیز کے وجود کو اس ملک میں غیر قانونی طریقے سے آئے ہوئے ہر اس غیر ملکی سے خطرہ ہے جو ویزا کے بغیر اس ملک کے مختلف علاقوں میں بآسانی گھوم پھر رہا ہے۔