سوشل میڈیا اور سنسر شپ

نگران وزیر اعظم کی اس بات سے شاید ہی کوئی اختلاف کرے کہ سوشل میڈیا بے سرو پا خبریں پھیلا رہا ہے آزادی اظہار کے نام پر غلط خبریں پھیلانا افسوس ناک ہے خدا لگتی یہ ہے کہ سوشل میڈیا کا حال اس جن جیسا ہے کہ جو بوتل سے باہر نکل آیا ہو اور اب اسے بوتل سے نکالنے والے دوبارہ بوتل میں بند کرنے میں دقت محسوس کر رہے ہیں سنسر شپ سے کوئی اچھی شے نہیں ہے پر آج کل سوشل میڈیا کے ذریعے جو فحاشی اور عریانیت پھیلائی جا رہی ہے اسے دیکھ کر سنسر شپ کے سخت مخالفیں بھی تقاضا کر رہے ہیں سوشل میڈیا کی سنسر شپ ضروری ہے کیونکہ ان اداروں نے معاشرے میں بگاڑ پیدا کیا ہے ایک دور تھا کہ جب تمام اہل خانہ سینما ہاﺅس یا گھر میں وی سی آر پر اکھٹے بیٹھ کر فلمیں دیکھ لیا کرتے تھے کیونکہ ہر فلم پر سنسر بورڈ والوں نے قینچی چلائی ہوتی تھی اور اس میں سے وہ سین نکال لئے ہوتے تھے کہ جو والدین بچوں کے ساتھ اکٹھا بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔اسرائیل اور بھارت کی حکومتوں میں ایک قدرے مشترک واضح طور پر نظر آ رہی ہے جس طرح سے مختلف سازشی‘ انتظامی اقدام اور
 حربوں سے اسرائیل فلسطین میں فلسطینیوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدل رہا ہے بالکل اسی طرح بھارت مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر رہا ہے ۔ لگ یہ رہا ہے جیسے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے نواز لیگ سے اپنی سیاسی راہیں جدا کر لی ہوں اس ضمن میں ان کا یہ بیان کہ وہ آئندہ الیکشن نہیں لڑ رہے بڑا معنی خیز ہے ‘ان کے ایک حالیہ بیان سے یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ ان کا سیاسی جھکاﺅ مریم نواز کے بجائے شہباز شریف کی طرف زیادہ ہے ‘جوں جوں الیکشن کی ممکنہ تاریخ نزدیک آ رہی ہے نواز لیگ اور
 پی پی پی کی قیادتیں بھی کئی قومی اور عالمی امور میں ایساموقف اختیار کر رہی ہیں جو ایک دوسرے سے کافی مختلف دکھائی دے رہی ہیں ان دونوں سیاسی جماعتوں کے قائدین کو بخوبی علم ہے کہ اس ملک کا وزیر اعظم وہی ہوگا جو تخت لاہور جیتے گا۔ زرداری صاحب ایک سے زیادہ مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں بلاول کو ملک کا وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں جب کہ نواز لیگ کی طرف سے مریم نواز اور میاں محمد نواز شریف دونوں میں سے کسی کے نام بھی وزارت عظمیٰ کا قرعہ فال نکل سکتا ہے اس صورت حال کے پیش نظر ان دونوں سیاسی جماعتوں کا الیکشن میں اتحاد رکھنا کافی مشکل کام ثابت ہو سکتا ہے ۔امریکی بحری بیڑے کے حرکت میں آ جانے سے فلسطین کا قضیہ گھمبیر صورت حال اختیار کر گیا ہے جس سے تیسری عالمگیر جنگ چھڑنے کا شدید خطرہ پیدا ہو گیا ہے‘ اقوام متحدہ کو اس نازک موڑ پر موثر اور بروقت ایکشن لینے کی ضرورت ہے ۔ادھر حماس اور اسرائیل کی جنگ کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ہے جس سے دنیا بھر میں تشویش پھیل رہی ہے۔