یادیں ہولے ہولے چل رہی ہیں

کسی زمانے میں پشاور میں سخت گرمی پڑتی تھی‘ ہمارا بچپن تھا‘ گھروں کے ٹھنڈے تہہ خانے گرمی کی شدت کو کم کرنے میں شہریوں کی مدد کرتے تھے‘ جو گھر حجم میں ذرا بڑے ہوتے تھے ان گھروں میں دو دو تہہ خانے ہوتے تھے‘ برف بہت دور برف خانوں میں ملتی تھی‘ مٹی کے گھڑوں کا پانی نسبتاً ٹھنڈا ہوتا تھا‘ صراحیاں رکھنے کو بھی ترجیح دی جاتی تھی جو مٹی کی ہوتی تھیں۔ ہر گلی محلے کے نکڑ پر ایک کنواں ضرور ہوتا تھا جو سارے محلے کی ٹھنڈے پانی کی ضروریات کے لئے کافی ہوتا تھا اور اس کے اوپر چرخی لگی ہوتی تھی‘ ساتھ چمڑے کا بوکا بندھا ہوتا تھا‘ اکثر بڑے آدمی چھوٹے بچوں کے لئے بوکے بھر بھر کر کنویں سے نکالتے تھے اور ان کے گھڑے اور دوسرے برتن بھر دیتے تھے‘ اللہ کی شان کہ پانی برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا ہوتا تھا جبکہ درجہ حرارت اور سورج کی تپش نہایت زیادہ ہوتی تھی۔ ان زمانوں میں موسم کی پیش گوئیاں کرنے کا کوئی رواج نہیں تھا‘ بارش کے لئے دعائیں مانگی جاتی تھیں۔ ایک کنواں مجھے ہمیشہ یاد رہتا ہے جو سرد چاہ گیٹ والی سڑک پر سیدھا آ جائیں تو بالکل سامنے نلکوں کی صورت میں دکھائی دیتا تھا‘ تھا تو وہ کنواں لیکن بوکوں کی بجائے نلکے ہوتے تھے‘ ساتھ ہی ایک گھر ہوتا تھا اور اس کے سامنے چھوٹے سے کھلے ایریا میں یہ نلکے تھے‘ ہر بچہ بڑا ان نلکوں کو کھول کر ٹھنڈے برف پانی سے اپنے برتن بھر لیا کرتا تھا۔ کتنا سادہ زمانہ تھا ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے لوگ‘ بچوں پر شفقت کرنے والے لوگ‘ ان کو سرد گرم حالات سے بچانے والے لوگ‘ ہمسایوں کے دکھ سکھ میں شریک ہونے والے لوگ‘ اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن ان کی یادیں اب بھی دلوں میں تازہ ہیں۔ شہر کے اندر کتنی ہی زیارتیں تھیں جن پر عورتیں اگر بتیاں اور شمعیں جلاتی تھیں‘ دعائیں مانگتی تھیں‘ خردے تقسیم کرتی تھیں اور اپنے اندر دبائے ہوئے غموں اور زخموں کو لے کر چپکے چپکے 
رویا کرتی تھیں‘ وہاں بیٹھے ہوئے بابوں کو پیسے دیتی تھیں اور بچوں کو دم کروایا کرتی تھیں۔ گھروں کے دروازے مہمان کی ایک آواز پر کھل جایا کرتے تھے‘ قہوہ تیار ہوتا تھا‘ قہوہ پئے بناءجانے نہ دیا جاتا تھا اور قہوہ نہ پلانے پر ناراضگی کا اظہار ہوتا تھا‘ قہوہ ایسا بنایا جاتا کہ ایک پیالی کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری پیالی پینے کو دل چاہتا ہی رہتا تھا۔ میں اکثر سوچتی تھی کہ یہ اتنا خوشبودار اور ذائقے دار قہوہ پشاور کی عورتیں کیسے بناتی ہیں‘ میں لاکھ بھی کوشش کروں مجھ سے کبھی 
ایسا قہوہ نہ بنتا جو میری ماں ماسی یا نانی بناتی تھی۔ گلی کی ہر عورت کو چاچی‘ اماں اور باجی پکارنے والے محلے کے لڑکے اور آدمی احترام اور آدمیت میں اولیت رکھتے تھے۔ ان سادہ عورتوں کے سلیقے اور روایات کو نبھانے کے قصے زبان زد عام ہوتے تھے‘ وہ اپنے آدمیوں کی خدمت گزار تھیں‘ مشترکہ خاندانوں میں رہتی تھیں‘ ساس سسر کی سخت ترین باتوں کو برداشت کرتی تھیں‘ اف تک نہ کرتی تھیں۔ مردوں کے کپڑے ایسے صاف ستھرے نشاستہ اور نیل دیئے ہوئے ہوتے کہ رشک آتا‘ کوئی واشنگ مشین بھی اتنے صاف شفاف کپڑوں کو دیکھے تو شرمسار ہو جائے جو وہ سادہ منش خواتین اپنے ہاتھوں سے دھوتی تھیں۔ استاد کی عزت کرنا سکھائی جاتی‘ بڑے چھوٹے کے لحاظ کے اسباق گھرسے ہی ملتے تھے‘ باپ تو اک ایسا سمبل ہوتا تھا کہ پیار تو اپنی جگہ لیکن ڈر‘ 
خوف‘ دبدبہ اپنی جگہ‘ مائیں کسی بھی اوچھی حرکت سے دور رکھنے کے لئے باپ کا ڈراوا دیتیں بس ہر بچہ دبک کر بیٹھ جاتا‘ جب تک دوسرا دن نہ چڑھ آتا وہ خوفزدہ ہی رہتا کہ اگر ماں نے ابا کو بتا دیا تو سخت سرزنش کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن ایسی نوبت کبھی نہ آتی۔ ہماری مائیں محبت اور شفقت کی مورتیاں تھیں‘ ڈراوا ضرور دیتی تھیں لیکن ہونٹوں پر کسی بچے کی شکایت نہ آتی تھی‘ فارغ اوقات میں سلائی کڑھائی کرتیں‘ کشیدہ کاری کرتیں‘ سوئیٹر بنتیں اور سب سے بڑھ کر ایسا اعلیٰ کروشیا کا کام کرتیں اور گھنٹوں دنوں میں کروشیا سے سے بنی ہوئی چادریں‘ میز پوش‘ تکیے پوش بنا ڈالتیں‘ ان کے ہاتھوں میں جیسے جادو تھا‘ اگر وہ عورتیں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوتیں تو نہ جانے معاشرے میں کیا انقلاب برپا کرتیں۔ اس زمانے کی جتنی عورتوں نے بھی تعلیم حاصل کی اپنے شہر سے ہٹ کر دوسرے شہروں میں نام روشن کیا‘ پشاور کی کئی نامور ڈاکٹر‘ پروفیسرز‘ سیاستدان خواتین آج تک تاریخ کے صفحات پر جگمگا رہی ہیں لیکن چونکہ تعلیم حاصل کرنے کا کوئی خیال خواتین کے لئے عام نہیں تھا اس لئے جو گھر پر بیٹھی تھیں قرآن مجید ترجمے کے ساتھ پڑھتی‘ بہت بچپن سے نمازوں اور روزوں کی پابندی کرتیں اور اپنے آباﺅ اجداد کے اصول و ضوابط پر عمل پیرا ہو کر سکون اور خوشی محسوس کرتیں۔ وہ تمام لوگ آج اس دنیا میں نہیں ہیں‘ قبرستان بھر چکے ہیں‘ لیکن وہ زمانہ‘ وہ لوگ سچے اور کھرے لوگ تھے‘ بہت یاد آتے ہیں‘ان کی باتیں ان کی یادیں دلوں سے محو نہیں ہوتیں‘ یوں جیسے کل ہی کی تو بات ہے۔ ہر ایک کو ہر ایک جانتا تھا‘ کوئی چہرہ ناشناسا نہیں ہوتا تھا‘ وہ گھر‘ و تہہ خانے‘ وہ کنویں‘ وہ قہوے سب ناپید ہو گئے ہیں‘ زمانہ بہت رفتار سے آگے کی طرف دوڑ گیا ہے لیکن یادیں بہت زیادہ پیچھے ہیں‘ بہت متانت کے ساتھ ہولے ہولے چل رہی ہیں اور منوں مٹی تلے سوئے ہوئے لوگوں کی انگلیاں تھامے ہوئے ہیں۔