امریکہ یہودیوں کی گرفت میں

آج کے کالم کا آ غازہم اولاد کےلئے والدین کی دعا یا بد دعا کے بارے میں ایک سوال سے کریں گے ایک عالم سے ایک شخص نے یہ پوچھا کہ بچوں کو ماں کی دعا یابدعازیادہ لگتی ہے یا باپ کی تو انہوں جواب دیا کہ باپ کی کیونکہ ماں تو اپنے بچوں کی محبت میں غلو سے کام لیتی ہے وہ تو اپنے کسی بچے کو برا کہتی ہی نہیں جبکہ باپ کی دعا یا بد دعا حقیقت پسندانہ ہوتی ہے ‘امریکی صدر بائڈن کا یہ بیان اگر کھل کر امریکہ کی تل ابیب کی طرف داری نہیں تو پھر کیا ہے کہ وہ اسرائیل اور فلسطین کی موجودہ جنگ میں اسرائیل کےساتھ کھڑا ہے‘ یہ بات تو عرصہ دراز سے طے ہے کہ کوئی بھی امریکی امریکہ کا صدر بننے کا سوچ بھی نہیں سکتا کہ جب تک امریکہ میں موجود یہودی سیاسی لابی اس کی حمایت نہ کرے کہ جو امریکی معیشت اور صحافت پر پوری طرح چھائی ہوئی ہے اور اس لابی کا امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں یعنی ری پبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی پر مکمل طور پر غلبہ ہے۔ قطع نظر اس بات سے کہ پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ درست ہے یا غلط ‘تجربہ بتاتا ہے کہ اگر کسی بھی پبلک سیکٹر کے ادارے کی باگ ڈور اچھے منتظم کے ہاتھوں میں ہو تو یہی پی آ ئی اے جب ائر مارشل اصغر خان اور ائر مارشل نور خان چلا رہے تھے تو ہماری قومی ائر لائن کا دنیا میں طوطی بولتا تھا اسی طرح ایک لمبے عرصے تک گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس جسے عرف عام میں جی ٹی ایس کہا جاتا تھا اس جیسی روڈ ٹرانسپورٹ سروس کا ملک بھر میں کوئی جواب نہ تھا مسافر جی ٹی ایس کی بسوں میں سفر کرنے کو ترجیح دیتے تھے یہ تو ہم نے صرف دو مثالیں دی ہیں درجنوں دیگر مثالیں بھی دی جا سکتی ہیں‘ قصہ کوتاہ کوئی بھی ادارہ ہو بھلے وہ پرائیویٹ یا پبلک سیکٹر میں ہو اگر اسے چلانے والا سربراہ دیانتدار ہوگا میرٹ اور قوانین کی پاسداری کرےگا اور اپنے ادارے کے کام کاج میں سیاسی مداخلت برداشت نہیں کرےگا تو وہ ہر لحاظ سے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرےگا۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے کیس کا تو چلو انجام کار فیصلہ ہو چکا ہے اب کنیڈا کو بھارت کےخلاف مزید ممالک کی حمایت حاصل ہو رہی ہے اگلے روز اردن برطانیہ اور متحدہ عرب امارات نے بھی بھارت کےخلاف قانونی کاروائی کے اپنے مطالبے پر پھر زور دیا ہے یہ مکافات عمل ہے کہ جس کا مودی سرکار کو سامنا ہے ۔