غزہ اور غرب اردن 

امت مسلمہ بجا طور پر فلسطین کا نا م آتے ہی حساسیت اور جذ با تیت کا مظا ہرہ کر تی ہے مگر عرب دنیا میں ایسا نہیں ہوتا ، عربوں کی نظر میں غزہ کی پٹی ، غرب اردن اور مسجد اقصیٰ کے مسائل اتنے حساس نہیں ہیں جتنے عرب سے باہر دوسرے مسلمان خیال کر تے ہیں اس کی ایک وجہ تو وہ ہے جو اردو کے شاعر جون ایلیا نے اپنی نظم ”ولایت خائیبان “ میں دکھا ئی ہے اس میں ایسی مملکت کا تصور ہے جس کے باد شاہ نے قوم کو پا نی میں نشہ آور گولیاں ملا کر پلا ئی ہےں۔
 دوسری وجہ یہ ہے کہ عرب اسرائیل کو امریکہ سمجھتے ہیں وہ جا نتے ہیں کہ اسرائیل امریکہ سے الگ ملک نہیں بلکہ امریکی ریا ستوں میں سے ایک ریا ست ہے جس کی خارجہ پا لیسی بھی امریکہ چلا تا ہے دفاع اور خزانہ بھی امریکہ کے ذمے ہے اور اسرائیل کے ساتھ جنگ کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کو لکار ا جا ئے‘ترکی ، ایران ، افغا نستان ، پا کستان اور انڈو نیشیا سے آواز اُٹھتی ہے کسی عرب ملک سے آواز نہیں اُٹھتی 1948اور 1967میں عربوں نے اسرائیل کے خلا ف دو جنگیں لڑ کر دیکھا دونوں میں عربوں کا نقصان ہوا فلسطینیوں کا نقصان ہوا نتیجے کے طور پر آج فلسطینی 3حصوں میں بٹے ہوئے ہیں فلسطینیوں کی بڑی آبا دی دیا ئے اردن کے مغر بی کنا رے آباد ہے جہاں تنظیم آزادی فلسطین کو محدود اختیارات کے ساتھ حکومت ملی ہے تما م محصولات اور آمدن اسرائیل جمع کر تی ہے اور فلسطینیوں کو بھیک کے طور پر اخرا جات کے لئے کچھ نہ کچھ دیتی ہے۔
 غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی تھوڑی آبادی رہتی ہے جہاں حماس کی محدود حکومت ہے رقبے کے لحاظ سے غرب اردن کا رقبہ 5970مر بع کلو میٹر اور غزہ کا رقبہ 365مر بع کلو میٹر ہے یہاں اسرائیل نے بھی اپنی بستیاں آباد کر رکھی ہےں یہ بستیاں ہر روز فلسطینیوں پر حملوں کے لئے استعمال ہو تی ہیں اور فلسطینی خوف کی حا لت میں رہتے ہیں غزہ کے محا صل بھی اسرائیل جمع کر تا ہے اور بوقت ضرورت فلسطینیوں کو دیتا ہے ، فلسطینیوں کا تیسرا گروہ وہ ہے جو 1948کی جنگ میں فلسطین سے نکا لا گیا اُس وقت ساڑھے سات لاکھ مہا جرین لبنان ، کویت اور دیگر مما لک میں پنا ہ گزین ہوئے تھے۔
 اب ان کی آباد ی ایک کروڑ سے زیا دہ ہے ان کی بڑی تعداد لبنان میں رہتی ہے‘ اس فلسطینی منظر نامے کو دیکھ کر عرب مما لک نے چپ سادھ لینے کی پا لیسی اپنا ئی ہوئی ہے اس صورت حا ل پر برادرم عتیق احمد صدیقی ( مقیم نیو یارک امریکہ ) نے 24اپریل 2015کو اپنے کا لم ( روز نا مہ آج ) میں لکھا تھا ” عراق ، شام اور یمن کی خا نہ جنگی کے اختتام پر تما م فریق زخمی گھوڑوں ، بکھرے خیموں اور ٹو ٹے طنا بوں سے اٹے میدان میں اپنے زخم سہلا رہے ہو نگے “ 8سال بعد بھی زخم بھر نہیں پائے کیونکہ غیر وں کے نہیں اپنوں کے دیئے ہوئے زخم ہیں آگے چل کر عتیق احمد صدیقی پیش گوئی کر تے ہیں۔
 ” امریکی خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ کے مطا بق عالم عرب کی خا نہ جنگیاں کئی سالوں تک جا ری رہینگی یوں خلیجی ریا ستیں دھڑا دھڑ اسلحہ خرید تی رہیںگی “ 8سال بعد بھی یہی حا لت ہے نہ فلسطینی متحد ہیں نہ عربوں میں اتحا د ہے اس وقت روس ، چین اور تر کی میں فلسطینیوں کےلئے ہمدردی مو جو د ہے ‘غزہ اور غرب اردن کا مسئلہ صرف فلسطینیوں کا مسئلہ قرار دیا جا تا ہے ، اسلا می ملکوں کی تنظیم ( او آئی سی ) کے پا س کوئی دفاعی منصو بہ نہیں ہے ۔
10عرب ریا ستوں کی اتحا د ی فوج کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں ہے روس ، چین ، ایران اور ترکی بہت کچھ کرنا چا ہتے ہیں مگر یہاں وصول کرنے والا کوئی نہیں ” مد عی سست گواہ چُست “ والا معا ملہ ہے دوسری طرف امریکہ ، اسرائیل ، اقوام متحدہ ، سلا متی کونسل اور یورپی یو نین کے پاس پورہ منصو بہ مو جودہے وہ غزہ اور غرب اردن سے بھی فلسطینیوں کو نکالنا چاہتے ہیں بیت المقدس( یرو شلم ) کو اسرائیل کا دارالخلا فہ بنا نا چاہتے ہیں ما ضی قریب میں ہر جنگ کے بعد فلسطینیوں کو نقصان ہی ہوا ہے ۔