پشاور میں گزرے کچھ دن

اسی اکتوبر کے مہینے میں کچھ دن میں نے پشاور میں گزارے‘ ٹھکانہ حسب معمول اپنی بڑی بہن کا گھر تھا‘ ماں باپ کے گھر تو کب کے تقسیم ہو چکے اور آخر میں فروخت بھی ہو چکے‘ ان دنوں میں دو سب سے اہم کام تھے جو کرنے ضروری تھے کیوں کہ میں بدھ کو پشاور آئی اور جمعرات12اکتوبر کو شام اباسین آرٹس کونسل میں میری تاریخی اور تحقیقی کتاب” قصہ خوانی کا قتل عام23 اپریل1930ئ“ کی تقریب پذیرائی تھی‘ جدید ٹیکنالوجی اور سمارٹ ٹیلی فون سے یہ فائدہ میں نے بھرپور اٹھایا کہ اسلام آباد میں بیٹھ کر اباسین آرٹس کونسل پشاور کے صدر عبدالرﺅف روحیلہ پروفیسر ملک ارشد حسین‘ مشیر ادبیات نذیر تبسم اور اعزازی سیکرٹری محترم جہانزیب ملک سے تقریب کے تمام معاملات طے ہوتے رہے اور میں نے عین جمعرات کو تقریب میں شرکت کرنا تھی اباسین آرٹس کونسل میں میری کتاب کی تقریب منعقد ہونا میرے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے یہ میری آرزو اور اک خواب تھا چونکہ کتاب پشاور کے ایک ایسے گم شدہ باب کے بارے میں ہے جس کو چار پانچ سال بعدایک صدی ہو جائے گی قصہ خوانی بازار میں یادگار شہیداں ڈھکی نعلبندی کے پاس سے روزانہ ہزاروں لوگ گزرتے ہیں لیکن شاید اب وہ لوگ بہت کم رہ گئے ہیں جن کو یہ معلوم ہے کہ آج سے94 سال پہلے برطانیہ کے فوجیوں نے اپنے کمانڈروں کے حکم پر مشین گنوں کے منہ کھول دیئے تھے اور عام نہتے شہری بڑی تعداد میں صبح سے شام تک شہید کر دیئے گئے تھے‘ میری تقریب کے مقررین و مبصرین میں ڈاکٹر عبدالجلیل پوپلزئی ‘ عتیق صدیقی‘ ڈاکٹر گلزار جلال‘ حنا رﺅف‘ محترمہ صفیہ احمد وائس چانسلر(شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی) ڈاکٹر محمد اسحاق وردگ اور میری بہن عذرا یاسمین تھے جنہوں نے میرے تعارف سے لے کر کتاب پر ایسے ایسے زاویوں سے روشنی ڈالی کہ میں خود بھی دم بخود رہ گئی ‘نذیر تبسم نے تو برملا کہہ دیا کہ اگر یہ تحقیق کسی یونیورسٹی کی رجسٹریشن سے کی جاتی تو ڈاکٹریٹ کی ڈگری مجھے مل جاتی لیکن میرا مقصد تو اپنے پشاورکے ان آباﺅاجداد کے خون اور شہادت کو ایک دستاویز کی شکل دینا تھا جن کی قربانیاں پاکستان کو بنانے کیلئے ان کے مدفن میں ہی منوں مٹی تلے دفن ہوگئیں ہاں اس خونی واقعہ کا ایک دادا غلام ربانی سیٹھی کا پوتا اکبر سیٹھی اس تقریب میں جوش وخروش کے ساتھ موجود تھا کہ ان کے خاندان کیلئے یہ جیتا جاگتا واقعہ آج تک موجود ہے اباسین آرٹس کونسل کے کارکنان اور تقریب کے شرکاءنے اپنی شرکت سے جو اعزازاور خوشی مجھے دی وہ میرے لئے سرمایہ رہے گا اس دن ہی ایک افسوسناک واقعہ پشاور میں ہوا تھا کہ ایڈورڈز کالج کے ایک معصوم طالب علم کی کچھ شرپسندوںنے اپنے مذموم مقاصد کیلئے جان لے لی تھی پشاور سوگوار تھا خدا ان کے والدین کو صبر جمیل عطا کرے آمین‘ ایسی شرپسندانہ وارداتیں دنیا کے ہر کونے میں رونما ہوتی ہیں اور اس کے سدباب کیلئے سکیورٹی ادارے اپنے کردار ادا کرتے رہتے ہیں‘ پشاور ہمیشہ مجھے ویسا ہی لگتا ہے جیسا میرے بچپن میں تھا بس ذرا آبادی کچھ ضرورت سے زیادہ ہوگئی ہے‘ رکشہ پشاور کی پہچان ہے ‘بڑی بڑی گاڑیوں ائرکنڈیشنڈ کاروں میں وہ اڑان محسوس نہیں ہوتی جو رکشے میں بیٹھ کر محسوس ہوتی ہے گاڑی نہ ہونے کے باعث ہمیشہ رکشے کا استعمال کیا اور بہت زیادہ کیا‘ قبرستان جاکر اپنے ماں باپ اور آباﺅ اجداد کی قبروں پر جاکر ایک سکون بھی ملتا ہے اور کچھ درد ناک یادیں بھی دل کو چاک کرنے کیلئے آس پاس ہوتی ہیں کتنا ہی وقت اپنے پیاروں کی ڈھیریوں کے پاس تلاوت کرتے ہوئے گزار دیا‘ ان سادہ دل غریب پرور رکھ رکھاﺅ اور روایات کو زندہ رکھنے والوں کو یاد کیا ان کی چھوٹی چھوٹی سادہ دلی اور دریادلی کی باتوں کو یاد کیا‘ اور یہ کہہ کر تسلی دی اپنے آپ کو کہ بس ہم نے بھی ادھر ان سے ملنے کیلئے آنا ہے‘ ایک دن ہمارے جانے کا وقت بھی آن پہنچے گا‘ قبرستانوں کے پاس آبادی اس طرح پھیل رہی ہے کہ شاید ایک دن آئے کہ اپنے آباﺅاجداد کی قبروں کو تلاش کرتے ہوئے راستے گم ہو جائینگے اور نشاندہی ممکن نہیں ہوگی قبروں کے اوپر چھوٹے بچے پتنگیں اڑا رہے تھے یقیناً عزت و حرمت ان کیلئے نہیں جو زمین کے اندر سوئے ہوتے ہیں والدین کا فرض ہے کہ وہ ان کو اس بات کی تربیت دیں کہ ایسا کرنا گناہ ہے کچھ اداس سوچوں کیساتھ واپس آگئے اگلا دن ہمارا صدر شفیع مارکیٹ میں گزرا‘ پشاور جاﺅ اور کپڑے کی شاپنگ نہ کرو تو بات نامکمل لگتی ہے اتنا ورائٹی والا اور سستا کپڑا شاید دنیا کے کسی خطے میں ملتا ہو پسند کرنا مشکل ہو جاتا ہے جس دوکان سے میں نے ویلوٹ خریدی اس شاہد خان نے انسٹاگرام کھول کر اپنی دوکان کی مشہوری مجھے بتائی اور مجھ سے پوچھا کہ کیا میں انسٹاگرام استعمال کرتی ہوں میں نے نفی میں جواب دیا وہ بڑا حیران ہوا لیکن مجھے خوشی ہوئی میرے پشاور کے دوکاندار بھی جدید ٹیکنالوجی کامقابلہ کرنے کیلئے میدان میں موجود ہیں پشاور کا فالودہ تو اس قدر مشہور ہے کہ اعلیٰ سے اعلیٰ کسی شہر کا خوبصورت ڈبوں میں بند فالودہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا پشاور میں جو بات میں نے شدت سے محسوس کی کہ ہر انسان محنت کش ہے کوئی ریڑھی بان ہے کوئی ہاتھوں میں چھابڑی لٹکائے سودا سلف بیچ رہا ہے ریڑھیوں میں فوم کے گدے اور دوسرا سامان گوداموں سے نکال کر دوکانوں پر پہنچا رہا ہے زمینوں پر اپنا سامان رکھ کر بیچ رہے ہیں ‘لنڈے کے کپڑوں سے خرید و فروخت کرکے رزق کمایا جارہا ہے بھکاری مجھے بہت ہی کم نظر آئے وہ بھی کچھ معذور لوگ‘ یا ایسی لاچار خواتین جن کے ہاتھوں میں سامان بھی برائے فروخت تھا لیکن اگر ان کو کچھ خیرات دے دی جائے تو وہ انکارنہیں کرتیں پشاور کی خود داری اور محنت سے کمائی کی لگن ایک مثال بن کر میرے سامنے آئی میرا پشاور دل کا امیر ہے مسکراتا ہوا‘ مہمان نواز اور قدرومنزلت کا جواب مثبت انداز میں دینے والا‘ یہ میرے یادگار دن تھے پشاور میں اور ساتھ ہی یہ احساس بھی کہ نہ جانے پھر کب آنا نصیب ہو۔