سیاسی منظرنامہ

انجام کار میاں محمد نواز شریف لاہور پہنچ ہی گئے اب وزیر اعظم کے منصب کیلئے ان میں اور بلاول بھٹو میں حقیقی سیاسی جنگ شروع ہونے کا وقت آن پہنچا ہے خدا کرے کہ اس جنگ میں ہارس ٹریڈنگ کا عمل دخل نہ ہو‘ دیکھتے ہیں زرداری صاحب نے اپنے بیٹے کو وزیراعظم بنانے کے واسطے کیا حکمت عملی بنا رکھی ہے کیونکہ وہ ایک سے زیادہ مرتبہ اپنی اس خواہش کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں بلاول کو ملک کا وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ لاہوریوں نے 21 اکتوبر کو وطن واپسی پر نواز شریف کا فقید المثال استقبال کیا ‘میاں نواز شریف کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ان کی پارٹی والوں نے ان کی ذات سے عوام کی کافی امیدیں باندھ دی ہیں لہٰذا ان کو ہر معاملے میں پھونک پھونک کر قدم اٹھانا ہوگا اور عوام کی امیدوں پر پورا اترنے کےلئے ملک کے ہر شعبہ زندگی خصوصا ملک کی معیشت میں انقلابی اقدامات اٹھانے ہوں گے چند دنوں میں پتہ چل جائے گا کہ ان کی پارٹی کے تھنک ٹینکس نے اپنا ہوم ورک کس حد تک مکمل کیاہواہے ‘میاں محمد نواز شریف کی مینار پاکستان کے مقام پر 21 اکتوبر کو کی گئی تقریر کافی سنجیدہ اور مدلل تھی ان کا یہ کہنا کہ وہ انتقام لینے کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے ‘ قابل تعریف ہے ان کی اس تقریر کے ہر لفظ سے اعتماد ٹپکتا تھا نئے نواز شریف اور پرانے نواز شریف میں کافی فرق دکھائی دیتا ہے‘21 اکتوبر کی ان کی تقریر کو تا دم تحریر یقینا ان کی سیاسی زندگی کی بہترین تقریر قرار دیا جاسکتا ہے ان کے الفاظ کا چناﺅ بہت عمدہ تھا ان کا انداز بیان دلآ ویز تھا انہوں نے اگر کسی پر تنقید بھی کی تو نہایت ہی لطیف انداز میں کی‘ انہوں نے اپنی پارٹی کے جوان سال ورکرز کو یہ نصیحت کر کے ایک اچھی روایت قائم کی کہ انہوں نے کسی بھی سیاسی مخالف کی گالی کا جواب گالی سے نہیں دینا ہے گو کہ نواز لیگ کی حریف سیاسی جماعتیں نواز شریف کے لاہور میں بھرپور استقبال اور جلسہ عام کو پلے ڈاﺅن کر رہی ہیں پر خدا لگتی یہ ہے کہ لاہور میں ہونے والے چند بڑے بڑے سیاسی جلسوں کی فہرست میں 21اکتوبر 2023کے جلسے نے بھی اپنا نام درج کرا لیاہے‘ کئی سیاسی مبصرین کے مطابق اس ملک کی سیاست میں البتہ ایک قباحت نظر آ رہی ہے اور وہ ہے موروثیت کہ جس نے ایک آدھ پارٹی کو چھوڑ کر کم وبیش ہر سیاسی پارٹی میں اپنے پنجے گاڑ رکھے ہیں‘ روشن خیال سیاسی مبصرین اور کئی پولیٹیکل سائنس کے طالب علموں کو اس بات پر دکھ بھی ہوتا ہے اور حیرت بھی کہ کیا بعض سیاسی جماعتوں کے قائدین کو اپنی پارٹی کے اندر بالکل کوئی بھی قابل فرد نہیں ملتا جو وہ اپنے بیٹوں بھائیوں یا بیٹیوں کو پارٹی کے اندر کلیدی عہدوں پر تعینات کر کے اپنا جانشین بنا دیتے ہیں موروثی سیاست اور بادشاہت میں بجز نام کے اور بھلا کیا فرق رہ گیا ہے جس طرح ایک بادشاہ اپنی زندگی میں ہی اپنا جانشین مقرر کر دیتا ہے بالکل اسی طرح سیاسی پارٹی کا قائد بھی اپنی پارٹی کے کلیدی عہدے پر اپنے بیٹے بیٹی یا بھائی کو تعینات کر دیتا ہے تاکہ ان کے بعد ان کی پارٹی کی قیادت اس کے گھر میں ہی رہ جائے یہ رحجان یا روش آ مرا نہ ہے اور جب تک اس کو ختم نہیں کیا جائے گا ملک میں صحیح معنوں میں جمہوریت جڑیں نہیں پکڑ سکے گی۔