نیرنگی سیاست 

 ابھی میاں محمد نواز شریف کو وطن واپس آئے چند گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ یار لوگوں نے لاہور میں ہونےوالے ان کے جلسہ عام میں کیڑے نکالنے شروع کر دئیے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ کیڑے نکالنے والوں کا تعلق ان جماعتوں سے ہے جو نواز کی حلیف سیاسی جماعتیں تصور کی جاتی ہیں ‘کسی نے کہا نواز شریف کی تقریر مایوس کن تھی کسی نے کہا کہ سابق وزیر اعظم نے کوئی روڈ میپ نہیں دیا‘ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ ساجھے کی ہنڈیا چوراہے پر پھوٹتی ہے ‘لگ یہ رہا ہے کہ تخت لاہور کیلئے پی پی پی اور نواز لیگ میں سیاست کے میدان میں گھمسان کا رن پڑنے والاہے کیونکہ دونوں فریقین کو اچھی طرح علم ہے کہ جو بھی پنجاب میں بازی لے گیا اسی کا رکن قومی اسمبلی وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھال سکتا ہے‘ واقفان حال کا کہنا ہے کہ نواز لیگ کی جیت کی صورت میں نواز شریف ملک کے وزیراعظم بن سکتے ہیں جہاں تک پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی تقرری کا تعلق ہے قرعہ فال اگر مریم نواز کے نام نہ نکلا تو ہو سکتا ہے نواز شریف اپنے بھتیجے حمزہ شہباز کو اس منصب پر بٹھا دیں پر یہ تب ہی ممکن ہے اگر نواز شریف ملک کا چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے کا ارادہ ترک نہ کریں تو ‘ بہر صورت مریم نواز اور حمزہ شہباز دونوں پنجاب کی وزارت عالیہ کے لئے مضبوط امیدوار ہیں ‘کئی سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ جہاں تک وزارت خزانہ کا تعلق ہے نواز شریف صاحب کو اب کی دفعہ کوئی ایسا نیا چہرہ متعارف کرانا چاہیے کہ جو ملکی معیشت کے ہر پہلو پر ازبرہو اور وہ دلیرانہ طور پر ایسے بولڈ فیصلے کرنے کا قائل ہو کہ جن سے ملک کی معیشت کو اشرافیہ اور مختلف مافیاز کے چنگل سے نجات دلائی جا سکے ‘جہاں تک سندھ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کا تعلق ہے وہاں سیاسی جماعتیں چوں چوں کا مربہ ہیں اس لئے وہاں مخلوط حکومتوں کے بننے کے امکانات زیادہ نظر آتے ہیں‘ الیکشن کے بعد جو حکمران بھی وفاق میں حکومت بنائے گا وہ پھولوں کی سیج پر نہیں بلکہ کانٹوں کے بستر پر بیٹھے گا ۔