ملک کے محب وطن باسیوںکو یہ خدشہ اندر سے کھائے جا رہا ہے کہ اگر الیکشن میں ہارنے والی سیاسی پارٹیوں نے میں نہ مانوں میں نہ مانوں کی رٹ لگا کر آسمان کو سر پر اٹھا لیا اور دھاندلی دھاندلی کی گردان شروع کر دی اور الیکشن کا رزلٹ ماننے سے انکا رکر دیا اور ملک میں سیاسی ہیجان اور انتشار کی صورت حال پیدا کردی تو اس ملک کا کیا بنے گا‘ کیا وطن عزیز اب ایک دن کیلئے بھی اس بات کا متحمل ہو سکتا ہے کہ اس میں سیاسی خلفشار رہے ‘جب پہلے ہی سے اس کی معیشت ڈانواں ڈول ہے ‘ ایوان اقتدار میں اور ایوان سے باہربےٹھے سیاستدان ایک دوسرے کی بات سننے کو تیار ہی نہیں ہیں‘ الیکشن کمیشن اور نگران حکومت بھلا کتنا ہی شفاف الیکشن کیوں نہ کرائے ہارنے والوں نے ملک میں شوروغل مچانا ہے اس ملک میں آج سیاسی پولارائزیشن polarisationکافی حد تک وسیع ہو چکی ہے اس لئے ملک کے سنجیدہ سیاسی حلقوں سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ الیکشن اقوام متحدہ کی زیر نگرانی منعقد کرائے جائیں تا کہ اقتدار آرام کے ساتھ جیتنے والی پارٹی کو بغیر کسی چوں چراں منتقل کیا جا سکے اقتدار کو حقیقی معنوں میں عوام کے نمائندوں کو منتقلی میں جتنی تاخیر ہو گی یہ ملک معاشی طور پر متاثر ہوتا جائیگا‘مستقبل کےلئے البتہ عوام کے ووٹوں سے جو سیاسی پارٹی اقتدار میں آئے اس کا فرض بنے گا کہ وہ انتخابی اصلاحات کا بیڑہ اٹھائے تاکہ مستقبل میں الیکشن کا انعقاد بہتریں انداز میں ہو‘ آج چونکہ ملک میں غیر معمولی سیاسی حالات ہیں لہٰذا الیکشن کے انعقاد کے واسطے غیر معمولی اقدامات اٹھانے ضروری ہوں گے‘1970ءکا جنرل الیکشن غالباً واحد الیکشن تھا کہ جس کے بارے میں سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ وہ دھاندلی سے پاک صاف تھا اور کمال کی بات یہ ہے کہ اس میں تمام ریٹرننگ افسران کا تعلق انتظامیہ سے تھا اس سے ثابت ھوتا ہے کہ اگر الیکشن میں سیاسی مداخلت نہ کی جائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ
ریٹرننگ افسران کون ہیں‘ کیا ان کا تعلق عدلیہ سے ہے یا انتظامیہ سے پھر یہ بھی ضروری ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کے انتخاب میں غیر معمولی احتیاط برتی جائے‘ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں زیادہ عرصہ نہیں ہوتا ایک ریٹائر سکھ انسپکٹر جنرل پولیس کو چیف الیکشن کمشنر لگایا گیا اس کانام ایم ایس گل تھا اور اس نے بحثیت چیف الیکشن کمشنر1996ءاور 2001ءکے دوران اس انداز سے بھارت میں الیکشن کروانے کہ بھارت کی تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہ عش عش کر بیھٹے‘ ہمیں بھی اس ملک میں ایک اسی قسم کے چیف الیکشن کمشنر کی ضرورت ہے ان ابتدائی کلمات کے بعد ہم چند تازہ ترین اہم قومی اور عالمی معاملات پرایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں ‘حکومت روزانہ میڈیا کے ذریعے کس قدر عوام کو یہ پیغام دیتی چلی آ رہی ہے کہ خدا را ہوائی فائرنگ سے باز آئیں کیونکہ اس سے کئی بے گناہ لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں‘ پر مجال ہے کہ کس کے کان پر جوں بھی رینگتی ہو‘ اسلام آباد کا شاید ہی کوئی ایسا رہائشی سیکٹر ہو کہ جہاں روزانہ ہوائی فائرنگ نہ ہوتی ہو‘ پولیس کے ناک کے نیچے ہوتی ہے اب یہ تو خدا ہی جانتا ہے کہ پولیس اس جرم میں ملوث افراد کو تھانے کی سیر کیوں نہیں کراتی کیا سیاسی طور پر ان مجرموں کے ہاتھ لمبے ہیں یا وہ متعلقہ پولیس والوں کی مٹھی گرم کر دیتے
ہیں اخبارات کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ وباءصرف اسلام آباد تک ہی محدود نہیں ہے ملک کے دیگر شہروں میں بھی یہ بیماری پھیلی ہوئی ہے۔ بادشاہت اور موروثی پارلیمانی جمہوریت میں اب صرف نام کا ہی فرق رہ گیا ہے بادشاہ سلامت اپنی زندگی میں ہی اپنے کسی بیٹے بیٹی یا بھائی کو اپنا ولی عہد یا جانشین قرار دے دیتے ہیں تاکہ جب کبھی بھی ان کو اوپر سے بلاوا آئے تو اقتدار انتقال میں کوئی رکاوٹ نہ ہو وطن عزیز میں جس قسم کی پارلیمانی جمہوریت کو فروغ دیا گیا ہے اس پر اگر آپ تفصیلی نظر ڈالیں تو آپ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ ایک آدھ سیاسی پارٹی کو چھوڑ کر باقی تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین نے کمال ہوشیاری سے اپنی اپنی پارٹی کے اندر کلیدی انتظامی مناصب پر ان افراد کو تعینات کر رکھا ہے کہ جن سے ان کے خون کے نزدیکی رشتے ہیں ۔ ان پارٹیوں میں دبی زبان میں بعض سینئر رہنماﺅں نے ان تعیناتیوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے پر وہ صدا بصحرا ثابت ہوئے ہیں‘ ویسے بھی نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ لکی مروت میں صنعتی زون کےلئے سیف اللہ برادران نے اپنی ایک ہزار کنال اراضی مفت دینے کا جو اعلان کیا ہے وہ قابل ستائش ہے اس سے روزگار کے مواقعوں کے ساتھ ساتھ بجلی کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوگا اس میں کوئی شک نہیں کہ سیف اللہ براداران کی سیاست کا محور عوام کی خدمت ہے‘ ان کا کوئی ذاتی ایجنڈہ نہیں ہے ہمیشہ خود کو اور دوسروں کو خدمت کا درس دیا ہے ہم پہلے بھی اس کالم کے توسط سے کئی مرتبہ لکھ چکے ہیں کہ آج وطن عزیز کو سیف اللہ برادارن جیسے سیاست دانوں کی ضرورت ہے کہ جو اپنے حلقہ انتخاب میں ایسے ایسے ترقیاتی کام کر رہے ہیں کہ جن کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہوگی۔