عقل کی باتیں


کئی ہزار سال پہلے ایک چیلے نے اپنے گرو سے کہا گرو جی گرو جی مجھے کوئی ایسا نسخہ بتادیں کہ میری عمر لمبی ہو جائے گرو جی نے اس چیلے سے کہا کہ جتنا تم کھا رہے ہو اس کو گھٹا کر آدھا کھانا شروع کر دو جتنا پانی تم پی رہے ہو اسے ڈبل کر دو اور جتنا تم روزانہ واک کرتے ہو اسے بھی ڈبل کردو ہزاروں سال بعد آج کا ڈاکٹر بھی اپنے مریضوں سے یہی کچھ کہہ رہا ہے آج اگر ملک میں امراض قلب بلڈ پریشر اور شوگر کے مریضوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگوں نے اپنی جسمانی حرکت کم کر دی ہے اور اپنے کھانے پینے میں احتیاط کا دامن بھی چھوڑ دیا ہے موٹاپے کو لوگ صحت سمجھنے لگے ہیں جبکہ یہ تمام بیماریوں کی جڑ ہے‘ صغیر سنی میں بچوں نے نظر کی عینک لگانا شروع کر دی ہے کیونکہ موبائل کے ساتھ وہ دن رات چپکے ہوئے ہیں‘ کھیل کے میدانوں یا پبلک پارکوں کا انہوں نے رخ کرنا چھوڑ دیا ہے‘ اس پر طرہ یہ کہ جنک فوڈ کے علاہ کوئی کھانا ان کے حلق سے نیچے اترتا ہی نہیں اس طولانی جملہ معترضہ کے بعد اگر آج کے چند تازہ ترین عالمی اور قومی دنیاوی امور کا تذکرہ ہو جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ‘ دنیا نے کئی شعبہ ہائے زندگی میں یقیناً بہت ترقی کی ہے لیکن نہ جانے کیوں ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ بعض ایسے شعبے بھی ہیںکہ جو زوال پذیر ہیں ‘آ ئیے ان پر ایک سرسری نظر ڈال لیں کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ آج دنیا کے سیاسی سٹیج پرقائد اعظم محمد علی جناح روزویلٹ چرچل ڈیگال ما ﺅزے تنگ چو این لائی‘ نیلسن منڈیلا نیرارے سوئیکارنو‘ پنڈت نہرو‘جمال عبدالناصر مارشل ٹیٹو ‘امام خمینی اور فیڈرل کاسترو جیسے سیاسی لحاظ سے بلند قدو قامت والی شخصیات نظر نہیں آ رہیں‘ کھیلوں کی دنیا میں آج کرکٹ کے میدان میں ڈونلڈ بریڈمین ‘ہاکی میں دھان چند ‘فٹبال میں میراڈونا اور سکواش میں ہاشم خان جیسے نابغے ناپید ہیں‘ بر صغیر کے فن موسیقی میں نوشاد علی خیام کھیم چند پرکاش استاد بڑے غلام علی خان محمد رفیع خورشید انور نورجہاں اور لتا منگیشتر کے پائے کے فنکار دوربین لگا کر بھی دیکھو تو دکھائی نہیں دیتے ‘فلمی اداکاری میں فن کی اس بلندی کو پھر کوئی اداکار نہیں چھو سکا کہ جس تک دلیپ کمار پرتھوی راج اور بلراج ساہنی یا مینا کماری پہنچے تھے اسی طرح برصغیر کی فلم انڈسٹری میں بطور فلم ہدایت کار محبوب خان انور کمال پاشا شانتا رام خلیل قیصر ریاض شاہد اور ضیاءسرحدی نے جو بلند مقام حاصل کیا تھا اس تک کوئی دوسرا ہدایت کار نہ پہنچ سکا برصغیر میں ریڈیو کا ظہور1930ءکی دہائی کے اوائل میں ہوا تھا سب سے پہلے جو ریڈیو سٹیشن غیر منقسم ہندوستان میں بنے ان میں ریڈیو سٹیشن پشاور بھی شامل تھا‘ بر صغیر کی ریڈیو براڈ کاسٹنگ سروس میں دو بھائیوں کا نام ہمیشہ سنہرے حروف سے لکھا جائے گا‘ ایک کا نام تھا احمد شاہ بخاری اور دوسرے کا نام تھا ذولفقار بخاری جو بخاری برادران کے نام سے مشہور تھے ‘احمد شاہ بخاری کا قلمی نام پطرس بخاری تھا اور ریڈیو کے علا وہ کافی عرصے تک تعلیم کے شعبے سے بھی منسلک رہے اور بعد میں سفارت کاری کے شعبے میں بھی کافی نام کمایا زیڈ اے بخاری البتہ ریڈیو پاکستان سے ایک لمبے عرصے تک منسلک رہے انہوں نے کئی نامور ریڈیو آرٹسٹوں کو آواز اور پھر ان کو فلمی دنیا سے بھی متعارف کرایا مثلاً آغا طالش ‘ابراہیم نفیس محمد علی مصطفےٰ قریشی نے بہت نام کمایا۔ ہم ایک عرصہ دراز سے یہ بات کہہ رہے ہیں کہ گو کہ کسی بھی مسئلے پر اپنے جذبات کا اظہار کرنا کوئی بری بات نہیں ہے پر جذبات کے اظہار کےلئے ایسا طریقہ استعمال کیا جائے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے‘ ہر شہر میں بڑے بڑے کھلے میدان موجود ہیں‘ پبلک پارکس کی کمی نہیں سیاسی زعماءکیوں آپس میں بیٹھ کر متفقہ طور پر یہ فیصلہ نہیں کرتے کہ وہ اپنے احتجاجی اجتماع سڑکوں کو بلاک کرنے کے بجائے ان کھلی جگہوں اور پارکوں میں کیا کریں گے تاکہ خلقت خدا کے روزانہ کے معمولات میں کوئی رخنہ نہ پڑے نہ ٹریفک میں کوئی رکاوٹ پڑے اور نہ امن عامہ متاثر ہو۔ پولیس افسروں کو سکالرز شپ پروگرام کے تحت چین بھجوانے کا فیصلہ ایک دانشمندانہ اقدام ہے ۔