گفتار میں شائستگی بہت ضروری ہے 

 پبلک لیڈرز کو اپنی گفتار میں احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے اور اپنی تقاریر میں ایسے الفاظ بالکل بھی نہیں استعمال کرنے چاہئیں کہ جو کسی کی دل آ زاری کا باعث بنیں ہم نے کتابوں میں پڑھا اور بزرگوں سے سنا ہے کہ اگر زبان کا درست استعمال انسان کو تخت پر بٹھاتا ہے تو اس کا غلط استعمال اسے تختہ بھی کر سکتا ہے تقریر کے دوران جوش خطابت میں ہم نے دیکھا ہے کہ ہمارے اکثر زعماءکے منہ سے ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں جو اخلاقیات اور تہذیب کے دائرے سے باہر ہوتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ہٹلر برطانیہ کے وزیر اعظم چرچل کے خلاف اپنی تقاریر میں نہایت گندی اور اخلاق سے گری ہوئی زبان استعمال کرتا جب اخباری نمائندے چرچل کی توجہ ان تقاریر کی طرف دلواتے تو چرچل ان کو صرف ایک جملہ کہتا کہ ایسا لگتا ہے ہٹلر کی پرائمری ایجوکیشن اچھی نہیں ہوئی اور ان کا یہ ایک جملہ ہٹلر کی تمام تقاریر پر حاوی ہوجاتا اسی طرح سوویت یونین کا ایک سابق سربراہ نکیتیا خروشیف بڑا سر پھرا اور بد تمیز انسان تھا ایک مرتبہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ایک اجلاس کے دوران اس نے اقوام متحدہ کے اس وقت کے جنرل سیکرٹری ڈاگ ہیمر شولڈ کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کئے جس پر جنرل سیکرٹری نے کمال حوصلہ مندی اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے خاموشی اختیار کی حالانکہ قانونی طور پر اگر وہ چاہتے تو سارجنٹ ان آ رمز کو کہہ کر خروشیف کو جنرل اسمبلی کے ہال سے باہر نکلوا سکتے تھے بعد میں جب اخباری نمائندوں نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے اتنی نرمی کا مظاہرہ کیوں کیا تو انہوں یہ جواب دیا کہ شاید میری پرائمری ایجوکیشن خوروشیف کی پرائمری ایجوکیشن سے بہتر تھی کہنے کا مقصد یہ ہے کہ قومی رہنماﺅں کو چرچل اور ہیمر شولڈ کی مندرجہ بالا حوصلہ مندی سے سبق حاصل کر کے برد باری اور میانہ روی کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے ان ابتداہی کلمات کے بعد تازہ ترین واقعات پر ایک ہلکا سا تبصرہ بے جا نہ ہوگا حکومت کا یہ عزم قابل قدر ہے کہ پاکستان میں انٹری صرف پاسپورٹ اور ویزے پر ہو گی اس ملک کے عام آدمی نے شکر کا کلمہ پڑھا ہے کہ 31 اکتوبر کو ڈیڈ لائن ختم ہونے تک طورخم بارڈر سے 82 ہزار پناہ گزین افغانستان منتقل ہوئے ہیں اب تک مجموعی طور پر 
پاکستان سے 2لاکھ افغانی واپس جا چکے‘ خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ پاکستان میں انٹری صرف ویزے اور پاسپورٹ پر ہو گی۔ دنیا کا کونسا دوسرا ملک ایسا ہو گا کہ جس میں جس کا دل چاہے بغیر پاسپورٹ اور ویزا کے داخل ہو جائے اور غیر قانونی طور پر وہاں شناختی کارڈ حاصل کر کے وہاں پراپرٹی بھی خرید لی‘ اب فوراً سے پیشتر پاکستان کے ارباب بست و کشاد کو کابل کے حکام سے گفت و شنید کے بعد ایک ایسا ویزا میکنزم کو وضع کرنا ہو گا کہ جس کے تحت غیر قانونی طور پر افغان نیشنلز کی پاکستان میں انٹری بند ہو جائے۔ جوں جوں الیکشن کے دن نزدیک آتے جا رہے ہیں سیاسی پارٹیاں اس میں اپنے امیدواروں کو ٹکٹ دینے کے لئے متحرک ہو رہی ہیں اور اس مقصد کے لئے امیدواروں کے انتخاب کے واسطے کمیٹیاں بھی بنائی جا رہی ہیں یہ مرحلہ ہر سیاسی پارٹی کے لئے بڑا نازک مرحلہ ہوتا ہے جن ممالک میں صحیح معنوں میں پارلیمانی جمہوریت قائم ہے وہاں ہر پارٹی کے قائد کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ الیکشن میں صرف اس امیدوار کو ٹکٹ دیں کہ جس کی عمومی شہرت اچھی ہو اس کا ماضی کسی بھی لحاظ سے داغدار نہ ہو وہ کسی مالی یا اخلاقی جرم میں ملوث نہ رہا ہو۔ اسمبلیوں کے اراکین نے ملک میں زندگی کے مختلف شعبوں میں اصلاحات لانے کے واسطے قانون سازی کرنا ہوتی ہے چنانچہ ان افراد کو ٹکٹ دئیے جائیں جو پڑھے لکھے ہوں اور جن کو قانون کی شدبد بھی ہو ۔اب ذرا دیکھئے ناں چین میں بھلا کون سی جمہوریت ہے وہاں کا عام شخص دیگر ممالک کے عوام الناس کے مقابلے میں کتنی آ سودہ اور خوشحال زندگی گزار رہا ہے اس جمہوریت کو کیا عام آدمی چاٹے گا کہ جس میں اس کی عزت نفس محفوظ نہ ہو جس میں اسے دن میں دو وقت کا کھانا نصیب نہ ہو اور بیماری کے علاج کے لئے اس کی جیب میں پیسے نہ ہوں۔ اگلے روز ایک لمبے عرصے کے بعد ہمیں پشاور شہر اور صدر کے بازاروں اور گلیوں میں گھومنے کا موقع ملا وقت بڑا ظالم ہے اس نے پشاور کا بھی حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے ار باب روڈ پشاور صدر میں لندن بک ڈپو کا حلیہ بگڑا دیکھ کر دکھ ہوا اس بک شاپ کے نزدیک اب نہ کیپٹل سنیما کا وجود رہا ہے اور نہ لینڈز ڈاﺅن کا کسی دور میں یہاں ہالی وڈ کی انگریزی فلمیں چلا کرتی تھیں‘ خیبر بازار کے عقب میں سینما روڈ پر پکچر ہاو¿س‘ ناولٹی اور تصویر محل نامی سینما گھروں کا وجود اب ناپید ہے جناح پارک کے قرب میں واقع سینما وقت کی گرد میں چھپ گیا ہے‘ افغان قونصل خانہ ہوا کرتا تھا جس سے روزانہ ایک بس کابل کیلئے جایا کرتی تھی۔