سابقہ فاٹا کے قبائلی علاقے کی لمبی پٹی جو باجوڑ سے شروع ہوکر مہمند ‘ خیبر اورکزئی‘ کرم‘ شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان سے گزرنے کے بعد آگے جا کر فورٹ سنڈیمن‘ بلوچستان کو بھی چھوتی ہے‘ میں فرنگیوں کے دور حکومت میں رابرٹ سنڈیمن نامی ایک پولیٹیکل ایجنٹ بلوچستان میں تعینات تھا اس نے اپنی محنت شاقہ مالی دیانتداری اور قبائلی رسم و رواج کی پاسداری کی وجہ سے بلوچیوں کے دلوں میں اس قدر جگہ بنا لی تھی کہ قبائلیوں کے مزاج کا یہ ایک خاصہ تھا جو اب بھی ہے کہ وہ اس افسر کو پسند کرتے تھے کہ جو قبائلی علاقے میں دوران سروس مالی طور دیانتدار ہوتا اورجو قبائلیوں کے درمیان فوجداری اور دیوانی تنازعات کو ان کے رواجات کے عین مطابق حل کرتا ‘ جو قبائلی مشران سے گفت وشنید سے ان کے علاقے کے مسائل حل کرتا اس قسم کے افسروں سے تعاون کرتے ہم نے مثال کےلئے صرف رابرٹ سنڈیمن کاذکر کیا ہے حالانکہ اس کے پائے کے کئی اور پولیٹکل افسروں نے بھی قبائلی علاقے میں دوران سروس اچھا نام کمایا ہے‘ بلوچستان میں ژوب کے صدر مقام کا نام فورٹ سنڈیمن رابرٹ سنڈیمن کی یاد میں رکھا گیا تھا جو
اب دوبارہ تبدیل کر کے ژوب رکھ دیا گیا ہے اب تو خیر سابقہ فاٹا کی ہر چیز بدل چکی ہے اب پولٹیکل ایجنٹ ڈپٹی کمشنر کے نام سے پکارا جاتا ہے پولیس تھانے وہاں بن گئے ہیں‘ اجتماعی قبائلی علاقائی ذمہ داری کے تصورکو ختم کر دیا گیا ہے‘ رابرٹ سنڈیمن کی شہرت کا چرچا فورٹ سنڈیمن سے ملحقہ وانا کے علاقے میں بسنے والے احمد زئی وزیر اور جنوبی وزیرستان کے مسعود قبیلہ میں بھی تھا اور یہ جو ایک سڑک وانا سے ٹانک کی طرف آ تی ہے اس کے ابتدائی سروے میں بھی رابرٹ سنڈیمن کی بے پناہ کاوش شامل تھی ‘رابرٹ سنڈیمن نے مندرجہ بالا قبائلی علاقے میں فرنگیوں کے قدم جمانے کےلئے گولی چلانے کے بجائے قبائل کا دل جیتنے کیلئے ان سے گفت و شنید کی پالیسی کو فروغ دیا ۔ کیا یہ بات او آئی سی کے ممالک کے لئے لمحہ فکریہ نہیں کہ تین غیر مسلم ممالک بولیویا کولمبیا اور بلی تو اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کر دیتے ہیں اور ببانگ دہل اعلان کر دیتے ہیں کہ اسرائیل انسانیت مخالف جرائم میں ملوث ہے جب کہ مسلم ممالک کی اکثریت نے اس معاملے میں خاموشی اختیار کر رکھی ہے امریکہ میں مقیم مسلمانوں کا یہ فیصلہ البتہ قابل ستائش ہے کہ وہ2024ءمیں ہونےوالے الیکشن میں جو بائیڈن کو ووٹ نہیں دیں گے اور جب تک غزہ میں جنگ بندی کےلئے اقدامات نہیں کئے جاتے وہ اپنے موقف پر قائم رہیں گے۔آئیے اب ذرا ذکر ہو جائے چین کے اورپاکستان کے معاشی نظام میں واضح فرق کا ‘ چین میں تو خط غربت سے نیچے رہنے والے تین کروڑ سے زیادہ لوگ ایک سال میں خط غربت سے اوپر آ جاتے ہیں جبکہ اسی عرصے میں سواکروڑ پاکستانی خط غربت سے نیچے چلے جاتے ہیں‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہمارے ماہرین چینی طرز پر اپنا معاشی نظام آخرکیوں نہیں ڈھالتے‘کونسی مجبوری ان کے آڑے آ رہی ہے ‘ملک میں ایک سے زیادہ ٹی وی چینلز چل رہے ہیں وہ کیوں ایک ایسے مباحثے کو ٹیلی کاسٹ نہیں کرتے جس میں تمام سیاسی پارٹیوں کو بمعہ ان کے معاشی معاملات کے ماہرین کو بلا کر براہ راست اپنا اپنا نقطہ نظر پیش کریں‘اس سے کوئی بہتری کی راہ نکل سکتی ہے ۔