جدید ترین فائر بریگیڈ سسٹم‘وقت کا تقاضا

 موت کا مزہ ہر انسان نے چکھنا ہے جو آتا ہے اس نے ایک دن جاناہوتا ہے اگلے روز پشاور کی صحافتی برادری کے پرانے کارکن نواز صدیقی بھی چل بسے انہوں نے بطور نیوز ایڈیٹر روزنامہ انجام اور بعد میں روزنامہ مشرق میں ایک لمبی اننگز کھیلی اور مسعود انور شفقی‘ حبیب الرحمان‘ داﺅد شاہ‘ یعقوب خان اور عبدالواحد یوسفی صاحب کی معیت میں ایک طویل عرصہ تک ڈیلی انجام اور مشرق میں کام کیا‘ ان کی وفات سے چند دن ہی پہلے ایک اور بزرگ صحافی حفیظ الفت بھی داعی اجل کو لبیک کہہ گئے تھے قلم قبیلے سے تعلق رکھنے والے اکثر صحافی جنہوں نے خیبرپختونخوا میں صحافت کی داغ بیل ڈالی اور پھر اس کے فروغ کیلئے گراں قدر خدمات سر انجام دیں‘ ان میں چند لوگوں کے نام اس وقت ذہن میں آ رہے ہیں ‘جیسا کہ سید حسن گیلانی‘ غلام غوث صحرائی‘ احقر سرحدی‘ مسعود انور شفقی ‘شیخ ذکاءاللہ ‘عسکر علی ‘شاہ سید عبداللہ شاہ‘ عبدالواحد یوسفی‘ راجہ اصغر‘ سید کاظم علی شاہ‘حفیظ قریشی شمیم بھیروی مرتضےٰ ملک اور سعیدالحسن رضوی ‘ان صحافیوں نے بڑے مشکل حالات میں قلم کی حرمت قائم رکھی اور شدید مالی مشکلات میں وقت گزارا ان کے وقتوں میں جو معاوضہ ان کو ملتا تھا وہ ان مالی مراعات کا عشر عشیر بھی نہیں تھاجو صحافی برادری کے ارکان کو آج میسر ہے ‘ان جملہ ہاے معترضہ کے بعد چند دیگر تازہ ترین قومی اور عالمی معاملات کا ہلکا سا تذکرہ بے جا نہ ہوگا‘ یہ کوئی اچھی بات نہیں کہ اس وقت ملک میں ٹاپ بیوروکریسی کے 43افسران گھروں میں او ایس ڈی بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں ‘اس ملک میں ایک عرصے سے یہ بڑی غلط روایت قائم ہو چکی ہے کہ حکومت وقت کسی افسر کی کسی اسامی پر کارکردگی سے اگر خوش اور مطمئن نہیں ہوتی تو یا تو اس کا تبادلہ کر کے کسی اور اسامی پرا س کو تعینات کر دیا جاتا ہے اور یا پھر اسے او ایس ڈی یعنی افسر بکار خاص لگا دیا جاتا ہے ‘ شنید ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کا عمل 6ماہ میں پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا‘ قومی ائر لائنز کے مستقبل کا فیصلہ عرصہ دراز سے زیر التواءرہا‘ ایک گو مگو کی صورت حال سے ہماری قومی ائر لائنز دوچار ہے آج سے بیس برس قبل کسی پاکستانی کے ذہن میں یہ بات آ ہی نہیں سکتی تھی کہ وطن عزیز کی قومی ائر لائنز جو ترقی کی معراج پر تھی ایک دن یہ حال بھی دیکھ سکتی ہے کہ جس کا آج کل اس کو سامنا ہے حکومت نے جو فیصلہ بھی کرنا ہے وہ جلد کرے کہ فیصلے میں مزید التواءاس کے معاملات کو مزید گھمبیر بنا دے گا۔یہ تو ماہرین معیشت ہی بتا سکتے ہیں کہ ہماری جان کب اور کیسے آئی ایم ایف کے قرضوں سے چھوٹے گی پر کیا وہ قوم کو یہ نہیں بتا سکتے کہ آخر 1992ءمیں ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے ان قرضوں سے جان کیسے چھڑائی تھی کاش کہ اس موضوع پر ہمارے الیکٹرانک میڈیا میں ایک سیر حاصل بحث کا آغاز کیا جائے تاکہ عوام الناس کو پتہ چلے کہ اس ملک میں وہ کون سے عناصر ہیں کہ جو ہمیں ان ذلت آمیز قرضوں کے چنگل سے جان چھڑانے کی راہ میں روڑے اٹکاتے ہیں۔یہ بات تو طے ہے کہ ہمارے کسی بھی شہر میں میونسپل کمیٹی یا میونسپل کارپوریشن کا اپنا قابل اعتبار فائر بریگیڈ سسٹم موجود نہیں ہے کہ جو شہر کے کسی بھی علاقے میں آتشزدگی کے واقعے میں متاثرہ علاقوں میں بروقت آگ بجھا سکے ‘اسے لامحالہ کسی اور ادارے کی مدد لینے کی ضرورت پڑتی ہے‘ جیسا کہ کنٹونمنٹ بورڈ یا افواج پاکستان ‘اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر شہر میں ایک منظم فائر بریگیڈ سسٹم قائم کیا جائے اور اس کو چلانے کی ذمہ داری میونسپل اداروں کو دی جائے فائر بریگیڈ سسٹم کو آگ بجھانے کے جدید ترین آلات سے لیس کیا جائے اور اس میں تعینات عملے کو آگ بجھانے کے جدید ترین طریقوں کی تربیت دی جائے‘ امریکہ میں فوج کی طرز پر فائر بریگیڈ سسٹم کو رائج کیا گیا ہے بالکل اسی طرز پر وطن عزیز میں اس سسٹم کی داغ بیل ڈالنی ضروری ہوگی ملک میں موجود فائر بریگیڈ سسٹم نہ ہونے کے برابرہے۔