کتب بینی کا شوق عنقاہو گیا

کہتے ہیں ایک اونس لکھنے کیلئے ایک ٹن پڑھنا پڑتا ہے انگلستان کے کسی بھی شہر کی سڑکوں پر آپ گھومیں بلا مبالغہ ہر فرلانگ کے بعد آپ کو ایک پبلک لائبریری نظر آئے گی جو ہر موضوع پر کتابوں سے لیس ہوگی اس کے اندر پڑھنے لکھنے کے واسطے نہایت ہی آرام دہ فرنیچر پڑا ہوگا کھانے پینے کیلئے لائبریری کے اندر ہی کینٹن کا بندوبست ہوگا‘ ہر ترقی یافتہ ملک میں لائبریریوں کا جال بچھا ہوتا ہے اور ان کے تعلیمی اداروں میں پڑھائی کا نصاب ہی اس طریقہ سے مرتب کیا جاتا ہے کہ کسی بھی سوال کے جواب دینے کیلئے ہر طالب علم کو خواہ مخواہ کئی کئی کتابوں کے مطالعے کی ضرورت پڑتی ہے ‘وطن عزیز میں صورت حال اس کے برعکس ہے اور ہر قاری کے علم میں ہے لہٰذااس پر لکھنا قرطاس کا ضیاع ہوگا‘ماضی قریب میں پنجاب میں میاں ممتاز دولتانہ نامی سیاست دان کی اپنی ذاتی لائبریری میں ہزاروں کتب موجود تھیں‘ انہوں نے لاہور کے تمام بڑے کتب فروشوں کو کہہ رکھا تھا کہ کسی عنوان پر جو بھی نئی کتاب مارکیٹ میں آ ئے تواس کی ایک کاپی ان کے پتے پر بھجوا دی جائے ‘میاں محمود قصوری اور زیڈ اے بھٹو کی بھی اپنی ذاتی لائبریری ہوا کرتی تھی ‘ہمارے اکثر پارلیمنٹرینز کو کتب بینی کا شوق تھا اور یہی وجہ تھی کہ جب وہ بولتے تھے تو ان کے منہ سے پھول جھڑتے تھے اور ان کی تحریریں بھی علم و ادب کا خزانہ ہواکرتی تھیں‘ آج کل تو معدودے چند یورپی ممالک کو چھوڑ کر دنیا کے بیشتر ممالک میں بھی کتب بینی کا کلچر رو بہ زوال ہے بعض کتابوں نے تو عالمگیر شہرت پائی ہے مثلًا معروف تاریخ دان ایڈورڈ گبن کی کتاب The decline and fall of Roman empire کا ہی ذکر کر لیتے ہیں سر ونسٹن چرچل جو خود بھی انگریزی زبان کے نامور لکھاری تھے اور جن کو ان کی کتاب ہسٹری آف انگلش سپیکنگ نیشنز پر لٹریچر کا نوبل پرائز ملا تھا‘ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ میں جب فرنگیوں کی فوج کے ساتھ سابقہ فاٹا کے علاقے میں تعنیات تھا تو میرے والد نے میرے لئے انگلستان سے ایڈورڈ گبن کی مندرجہ بالا کتاب یہ کہہ کر بھجوائی تھی کہ چونکہ ہندوستان میں گرمیوں کے لمبے لمبے دن ہوتے ہیں تم اس کتاب کو پڑھا کرو ‘چرچل لکھتے ہیں کہ میں نے انگریزی زبان کا لکھنا ایڈورڈ گبن کی مندرجہ بالا کتاب پڑھ کرسیکھا ہے اس بات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مندرجہ بالا کتاب کا انگریزی زبان میں کتنا اونچا مقام ہے یہ بات آپ کو ماننا پڑے گی کہ باوجود اس حقیقت کے کہ الیکٹرانک میڈیا بڑی تیزی سے دنیا میں پھیلا ہے پر جہاں تک انگلستان کا تعلق ہے وہاں کتب بینی اور اخبار پڑھنے کا شوق بدستور قائم ہے‘ الیکٹرانک میڈیا نے ان کی صحت پر کوئی اثر نہیں ڈالا ہے‘ کسی دور میں وطن عزیز میں ہر میونسپل ادارہ اپنی علیحدہ پبلک لائبریری بھی چلایا کرتا تھا پر اب ان کو بند کر دیا گیا ہے کالجوں کو لائبریریوں کے قیام اور کتب کی خریداری کے واسطے فنڈز فراہم نہیں کئے جا رہے جس کی وجہ سے کئی کالجوں میں لائبریریوں کا سرے سے وجود ہی نہیں ہے۔وطن عزیز میں ہرگیارہ میں سے ایک فرد کا شوگر کی بیماری میں مبتلا ہونے کی خبر نہایت تشویشناک ہے کیونکہ یہ بیماری تمام بیماریوں کی جڑ قرار دی گئی ہے‘ احتیاطی تدابیر اپنائے بغیر تعداد آئندہ چند برسوں میں نمایاں طور پر بڑھنے کا امکان ہے‘ ماہرین خوراک ورزش اور تناﺅ سے پاک ماحول کو برقرار رکھنے کے ذریعے اس مرض کو کنٹرول کرنے کی تجویز پیش کرتے ہیں ۔ اگلے روز ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیس وین پر حملہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ وطن عزیز کس قدر دن بہ دن بڑھتی ہوئی دہشت گردی کا شکارہے‘ اسی طرح گوادر میں فورسزقافلے پر دہشت گردوں کے حملے میں14 جوانوں کا شہید ہو جانا بھی ایک قومی سانحہ سے کم نہیں دشمن گوادر جیسے اہم معاشی ترقی کے منصوبے کی بروقت تکمیل کی راہ میں روڑے اٹکا کر اسے ناکام کرنے سازش کر رہا ہے۔