دریں اثنا سپریم کورٹ نے پشاور مرکزی عید گاہ پر سیکرٹریٹ تعمیر کرنے کے کیس میں محکمہ اوقاف اور صوبائی حکومت کو نوٹس جاری کردیا۔
جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ پندرھویں صدی کی مسجد اور عید گاہ ہے، صوبائی حکومت وہاں سیکرٹریٹ تعمیر کرنا چاہتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ مسجد نہیں عید گاہ کی زمین ہے، عید گاہ کی زمین تو اوپن ہوتی ہے، زمین کی ملکیت کس کی ہے؟
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ زمین مسلم کمیونٹی کی ملکیت ہے، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ مسلم کمیونٹی کسی این جی او کا نام ہے؟ زمین کسی کی ملکیت تو ہوگی، جو دستاویز آپ دکھا رہے ہیں اس کے مطابق یہ وقف کی زمین ہے۔
وکیل نے بتایا کہ پشاور مرکزی عید گاہ پر وزیر اعلیٰ سمیت نامور شخصیات عید نماز ادا کرتے ہیں۔
جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ سیکرٹریٹ تعمیر کا سائیٹ پلان کدھر ہے؟ جسٹس عرفان سعادت نے استفسار کیا کہ اگر عید گاہ مسجد کے ساتھ مولوی صاحب کا کوارٹر تعمیر ہو تو اس پر آپکو اعتراض ہوگا، وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ مولوی صاحب کا کوارٹر پہلے سے تعمیر شدہ ہے۔
بعدازاں جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے محکمہ اوقاف صوبائی حکومت کو نوٹس جاری کردیا۔