امریکہ نے 1950ءسے لے کر 1980ءتک دنیا میں کمیونزم کے خلاف سرد جنگ یعنی کولڈ وار لڑی دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں دو سیاسی بلاکس وجود میں آ گئے تھے ایک کی قیادت امریکہ کر رہا تھا اور دوسرے کی سوویت یونین دونوں کی کوشش یہ تھی کہ سیاسی عسکری اور سائنسی میدانوں میں ایک دوسرے کو مات دی جاے اور اپنا اثر و رسوخ جتنے زیادہ ممالک میں ہو سکے بڑھایا جائے امریکہ نے نیٹو کے نام سے تو سوویت یونین نے وارسا پیکٹ کے نام سے عسکری نوعیت کے پیکٹ قائم کر ڈالے چاند پر ایک دوسرے سے پہلے پہنچنے کی دوڑ میں سوویت یونین نے امریکہ کو مات دی روس کی کمیونسٹ حکومت نے وسطی ایشیا کے کئی ممالک کو یکجا کر کے سوویت یونین۔ کے نام سے جو بلاک تشکیل دیا وہ امریکہ کی آنکھ میں کھٹکتا رہا اور امریکہ نے انجام کار سازشوں کے ذریعے سوویت یونین کو 1980ءکے عشرے میں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اس کا خیال تھا کہ اب دنیا یونی پولر ہو گئی ہے اور اب واشنگٹن دنیا کا بے تاج بادشاہ بن گیا ہے پر اس کا یہ خیال خوش فہمی ثابت ہوا کیونکہ اس دوران چین نہایت خاموشی کے ساتھ زندگی کے ہر میدان میں آہستہ آہستہ آگے بڑھ گیا اور آخر کار کمیونسٹ ممالک کی قیادت اس کے ہاتھ آ گئی چونکہ تھے تو دونوں چین
اور روس امریکہ کے دشمن ان دونوں ممالک کی قیادت نے محسوس کر لیا کہ وہ امریکہ کو انفرادی طور پر کسی میدان میں مات نہیں دے سکتے بجز اسکے کہ وہ آپس میں ایک متحدہ محاذ بنا لیں چنانچہ آج کی دنیا میں اگر ایک طرف امریکہ ہے تو دوسری جانب روس اور چین کا یونائیٹڈ فرنٹ موجود ہے روس کے عوام امریکہ کو سوویت یونین توڑنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور وہ روس کے موجودہ صدر پیوٹن کو قدر کی نگاہ سے اسلئے دیکھتے ہیں کہ وہ ان وسطی ایشیا کے ممالک کو دوبارہ سوویت یونین کی شکل میں ایک ہی گروپ بنانے کی کوشش میں سخت محنت کر رہے ہیں لگ یہ رہا ہے کہ جیسے روس اور چین کی رفاقت سے دنیا میں کمیونزم کی نشاة ثانیہ ہو گئی ہے۔ فلسطین میں جنگ بندی کی راہ میں امریکہ حائل ہے جو اقوام متحدہ میں ہر اس کوشش کو ویٹو کر رہا ہے کہ جو غزہ میں جنگ بندی کیلئے کی جا رہی ہے۔ کسی نے سچ ہی تو کہا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا
اور یہ کہ سیاست میں کوئی بھی حرف آخر نہیں ہوتا ان محاوروں کی صداقت کا تازہ ترین ثبوت ن لیگ اور ایم کیو ایم کا حالیہ ہونے والا انتخابی اتحاد ہے‘ ن لیگ نے تو الیکشن کیلئے منشور کمیٹی بھی بنا دی ہے اور دوسری سیاسی جماعتیں بھی ہو سکتا ہے ایک آدھ دن میں اپنے اپنے منشور کے بارے میں اعلان کر دیں‘ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام اپنے سیاسی شعور کا مظاہرہ کرے اور الیکشن میں اس سیاسی جماعت کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھائیں جو اپنے انتخابی منشور میں واضح اور غیر مبہم الفاظ میں یہ روڈ میپ دے کہ وہ اقتدار میں آ کر کس طرح اور کتنے عرصے میں ملک کے معاشی نظام کو درست کرے گی امیر اور غریب کے درمیان بڑی خلیج کو کس طرح ختم کرے گی کیا وہ حصہ بقدر جثہ کے فارمولے پر عمل پیرا ہو کر موٹی توندوں اور موٹی گردنوں والوں کو ٹیکس نیٹ کے نیچے لائے گی اور کس طریقہ کار سے‘ خدا لگتی یہ ہے کہ ماضی میں ہر الیکشن کے وقت سیاسی جماعتوں نے قوم سے جو وعدے وعید کئے ان کو اقتدار میں آنے کے بعد شاذ ہی ان پر عملدرآمد کیا۔ اب تو عوام میں سیاسی شعور ضرور پیدا ہونا چاہئے‘ پارلیمانی نمائندوں کو اپنے اپنے حلقوں میں ترقیاتی منصوبے بنانے کے نام پر ہر سال حکومتیں جو ترقیاتی فنڈز مہیا کرتی ہیں اس پر کافی لے دے ہو رہی ہے اور اکثر سیاسی مبصرین کے خیال میں یہ سلسلہ بند کرنا ضروری ہے۔