وی آئی پی کلچر


یوم اقبال کے موقع پر ہمیں نہ جانے مرزا محمود سرحدی کا یہ شعر کیوں یاد آ یا جو کچھ یوں تھا‘ہم نے اقبال کا کہا مانا اور فاقوں مرتے رہے۔
جھکنے والوں نے رفعتیں پائیں 
ہم خودی کو بلند کرتے رہے
  مرزا صاحب ایک مزاحیہ شاعر تھے جو کسی زمانے میں روزنامہ انجام پشاور کے واسطے روزانہ بڑے تھی کے انداز میں ایک قطع لکھا کرتے تھے جو اس اخبار کے قارئین بڑے شوق سے پڑھتے تھے۔آئیے اب ایک طائرانہ نظر ملک کو درپیش چند اہم قومی اور عالمی معاملات پر  ڈالتے ہیں‘ وی آئی پی کلچر کو ختم کرنے کی بات کئی لوگوں نے کی پر اسے اب تک ختم نہیں کیا جا سکا ایک  چھوٹی سی مثال آپ کو دے دیتے ہیں آپ نے اکثر دیکھا ہو گا کہ ٹریفک پولیس ان روڈوں پر جنرل ٹریفک بند کر دیتی ہے کہ جن پر سے وزراء یا کسی اور شعبہ زندگی کے سینئر افسران کی گاڑیاں گزرنے والی ہوں جس سے عام ٹریفک بری طرح متاثر ہو جاتی ہے اور خلقت خدا کو گھنٹوں گھنٹوں ٹریفک جام میں رکنا پڑتا ہے مریض بروقت ہسپتال نہیں پہنچ پاتے‘ سکول اور کالج کے بچے وقت مقررہ پر اپنے تعلیمی اداروں تک نہیں پہنچتے‘ جب تک وی آئی پی ان روڈوں سے گزر نہیں جاتا عام ٹریفک بند رہتی ہے‘ چند برس پہلے انگلستان میں ڈیوڈ کیمرون وزیر اعظم کے عہدے پر فائز تھے ایک دن انہوں نے لندن کے پولیس کمشنر کو بلابھیجا اور اس سے یہ کہا کہ میں روزانہ جب اپنے دفتر سے پارلیمنٹ جاتا ہوں تو دس منٹ لیٹ ہو جاتا ہوں کہ جن سڑکوں پر سے ہو کر میری گاڑی کو جانا پڑتا ہے وہاں بے پناہ ٹریفک کا رش ہوتا ہے اس لئے کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ جب میری گاڑی مجھے دفتر سے لے کر پارلیمنٹ کی طرف جا رہی ہو تو جن جن روڈوں پر سے اسے گزرنا ہوتاہے وہ اس وقت عام ٹریفک کے لئے بند کر دئیے جائیں‘لندن کے پولیس کمشنر نے اپنے وزیر اعظم سے کہا نہیں سر ایسا کرنے سے خلقت خدا کو تکلیف ہو سکتی ہے اس سے بہتر بات یہ ہوگی کہ آپ ذرا پارلیمنٹ جانے کیلئے دفتر سے دس بارہ منٹ پہلے نکل آیا کریں‘ کیا اس قسم کا جواب ہمارا کوئی بھی پولیس کا افسر اپنے وزیر اعظم کو دینے کا سوچ بھی سکتا ہے؟ وزیراعظم کا یہ تازہ ترین بیان نہایت ہی صائب بیان ہے کہ کچھ بھی ہو جائے غیر قانونی تارکین وطن کو واپس جانا ہوگااور یہ کہ افغان حکومت بھی غیر قانونی مقیم پاکستانیوں کو اپنے وطن سے واپسبھجوائے اور ہم ٹرانزٹ ٹریڈ جاری رکھیں گے ان کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ امریکی اسلحہ بلیک مارکیٹ میں فروخت ہونے کے شواہد سامنے آ چکے ہیں وزیر اعظم نے یہ بھی بجا فرمایا ہے کہ مطلوب دہشت گردوں کی فہرست دینے کے باوجود افغانستان نے عدم تعاون کا رویہ اپنایا‘خیبر بازار پشاور شہر کا دل ہے جب وہاں باولے کتوں کی بھر مار ہو اور بوڑھے اور بچے اور خواتین سگ گزیدگی کا شکار ہو رہے ہوں تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ شہر کے دوسرے علاقوں کا کیا حال ہو گا‘ میونسپل کارپوریشن پشاور کے متعلقہ محکمہ کی غفلت کے اس عالم کا سیکرٹری بلدیات کو سختی سے نوٹس لینا چاہیے لگا ہے۔یوکرائن کو پاکستان نے نہ اسلحہ فراہم کیا نہ ارادہ ہے یہ پراپیگنڈہ ہمارے دشمن روس کو ہم سے بد ظن کرنے کیلئے کر رہے ہیں۔