عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر باتیں

یہ بات اس ملک کے عام آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ آ خر ہمارے بعض اکابرین حکومت کے اس فیصلے پر کیوں اتنے سیخ پا ہیں جس کے تحت ملک میں غیر قانونی طور پر رہنے والوں کو اپنے ملک بھیجا جا رہا ہے حکومت کے اس فیصلے سے آ خر ان کو کیااختلافھہ کونسا ایسا ملک ہوگا کہ جو غیر ملکیوں کو اتنی ڈھیل دیتا ہو کہ وہ اس کی سر زمین پر بغیر ویزا کے قدم رکھیں جو لوگ حکومت کے مندرجہ بالا فیصلے پر نالاں ہیں عام آدمی کا ان کو مشورہہے کہ وہ حکومت کے اس صائب فیصلے میں اس کا ساتھ دیں ورنہ اس ملک کا عام آدمی یہ سوچنے پر مجبورہو جائے گا کہ غیر قانونی طور پر اس ملک میں رہنے والے افغانیوں کی حمایت کر کے کہیں آئندہ الیکشن میں وہ ان کے ووٹ حاصل کرنے کے چکر میں تو نہیں پھنسے ہوئے ہیں۔چین اور دیگر سپر پاورز کی خارجہ پالیسی میں ایک واضح فرق نظر آ رہا ہے‘ چین دنیا میں اپنا سیاسی معاشی اور عسکری اثر گفت و شنید کے ذریعے دھیرے دھیرے پرامن طریقے سے کامیابی سے بڑھا رہا ہے مثال کے طور پر سوویت یونین ایک عرصہ دراز سے گرم پانیوں تک رسائی کے واسطے گوادر تک پہنچنا چاہتا تھا پر اس مقصد کے حصول کے واسطے اس نے جو عسکری طریقہ کار استعمال کیا وہ جبر پر مشتمل تھا اس کے بر عکس چین نے بڑے سیاسی انداز میں سی پیک کے منصوبے کے تحت وہاں تک بغیر کوئی گولی چلائے رسائی حاصل کر لی ہے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چین اگر آج دنیا کی سیاست میں دیگر سپر پاورز کو بہت پیچھے چھوڑ گیا ہے تو اس کے پیچھے ہزاروں سالوں پر محیط عقل و شعور و دانش کا وہ پر مغز خزانہ ہے جو چینیوں کو ورثے میں اپنے اکابرین سے ملا ہے‘ وہ امریکہ یا کسی اور سپر پاور کی طرح جمعہ جمعہ آٹھ دن کی پیداور نہیں ہے‘ عقل و دانش اور سیاسی حکمت میں آج دنیا میں ان کا جواب نہیںہے ۔جوں جوں الیکشن کی تاریخ نزدیک آ تی جا رہی ہے پی پی پی اور ن لیگ کے درمیان خلیج نمایاں ہوتی جا رہی ہے ‘زرداری صاحب ہر صورت میں اپنے صاحبزادے کو وزیر اعظم کے سنگھاسن پر بیٹھا دیکھنا چاہتے ہیں جب کہ میاں نواز شریف یا تو خود اس منصب کے ایک مرتبہ پھر خواباں ہیں اور یا بھر اپنی صاحبزادی کو یہ منصب سونپنا چاہتے ہیں۔ کچھ عرصے سے ن لیگ اور پی پی پی کے رہنما ایک دوسرے پر پھبتیاں کس رہے ہیں جن سے ظاہرہو رہا ہے کہ کئی امور پر ان میں اختلاف رائے موجود ہے ۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ اب کی دفعہ مولانا فضل الرحمان ملک کے صدر بن سکتے ہیں کیونکہ انہوں نے دونوں سے یعنی میاں محمد نواز شریف اور زرداری سے بنا کر رکھی ہوئی ہے اور اگر ن لیگ اور پی پی پی الیکشن میں فیصلہ کن سیٹیں جیت لیتی ہے تو مولانا کا ستارہ جگمگا سکتا ہے سیاسی مبصرین کے مطابق آئندہ الیکشن کے بعد ملک میں بننے والے پولیٹکل سیٹ میں جماعت اسلامی ایک ٹھوس اپوزیشن پارٹی کا کردار ادا کر سکتی ۔