خدا نے پاکستان ائر فورس کو ائر مارشل اصغر خان اور ائر مارشل نور خان کی شکل میں دو ایسے فضائیہ کے سربراہ دئیے تھے کہ جن پرآج بھی پوری قوم فخر کرتی ہے ان کی دیانتداری‘ محنت شاقہ اور اپنے پیشے میں مہارت ضرب المثل بن چکی ہے ‘ائر فورس سے ریٹائرمنٹ کے بعد ان دونوں افسروں نے قومی ائر لائنز پی آئی اے کی بھی قیادت کی اورآج یہ دونوں بقید حیات نہیں پر وہ پاکستان ائر فورس کے تمام نوجوان افسروں کیلئے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں رسالپور میں ائر مارشل اصغر خان نے 1948ءمیں جس پی اے ایف اکیڈمی کی بنیاد رکھی تھی اس نے گزشتہ 75 سال میں پاکستان ائر فورس کیلئے کئی نابغے پیدا کئے جنہوں نے 1965ءاور 1971ءکی پاک بھارت جنگوں میں اپنی پیشہ ورانہ مہارت اور جرات سے بھارتی فضائیہ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا کہ جو اس سے چھ گنا بڑی تھی‘ اسی طرح پاکستان کی بری فوج اور بحریہ میں بھی کئی نابغے پیدا ہوئے‘ افواج پاکستان میں بھرتی کا جو طریقہ کار ہے وہ اتنا شفاف اور جامع ہے کہ اس میں سفارش یا سیاسی مداخلت کا چانس نہ ہونے کے برابر ہے اسی لئے کئی مبصرین اس بات پر مصر ہیں کہ اگر ملک کے پولیس کے نظام کو درست کرنا ہے تو اس کی ریکروٹمنٹ خاص کر اس کے نچلے درجے میں بھرتی کے نظام کو افواج پاکستان میں بھرتی کے نظام کی طرح وضع کیا جائے جہاں تک سول سروس آف پاکستان میں بھرتی کے سسٹم کا تعلق ہے وہ اس وقت تک بالکل ٹھیک ٹھاک تھا کہ جب تک اس میں بھرتی وفاقی اور صوبائی سطح پر پبلک سروس کمیشن کے ذمہ تھی جس دن سے سول سروس میں بے قاعدگی ہونے لگی اس دن سے پاکستان میں گڈ گورننس کا خاتمہ ہوگیا ۔اب آتے ہیںتازہ ترین قومی اور عالمی معاملات کے ہلکے سے ذکر کی طرف‘ وزیراعظم کا یہ بیان بالکل درست ہے کہ افغان مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ تاخیر سے کیا گیا‘ یہ فیصلہ بہت پہلے ہو جاتا تو بہتر تھا۔اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایف بی آر ملک کی 22 فیصد دولت پر قابض ایک فیصد امیر طبقے کو مکمل طورپرٹیکس نیٹ میں لانے میں ابھی تک ناکام ہے اربوں روپے کے غیرواضح اثاثوں کے مالکوں نے کمال ہو شیاری سے اپنی غیر قانونی دولت اور اثاثے دوسروں کے نام چھوڑ دئیے ہیں۔اس ماہ کی 14تاریخ سے17تاریخ تک چینی صدر امریکہ کا جو دورہ کر رہے ہیں وہ اہم سیاسی اہمیت کا حامل ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ چین کی قیادت کی حتی الوسع یہ کوشش ہے کہ دنیا میں سپر پاورز کے درمیان کشیدگی کم ہو‘ اگر امریکہ کے ارباب بست و کشاد بھی چین کی طرح کشادہ دلی کا مظاہرہ کر کے عالمی امن کے حصول کے لئے ٹھوس قدم اٹھائیں اور ان ممالک کی ہلہ شیری نہ کریں کہ جو چین کے سیاسی طور پر دشمن ملک تصورکئے جاتے ہیں تو عالمی امن میں خوشگوار تبدیل آ سکتی ہے ۔ابھی الیکشن ہوئے نہیں ہیں اور ابھی سے ان کی شفافیت پر بعض سیاسی عناصر انگلیاں اٹھا رہے ہیں جس سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ عین ممکن ہے کہ اس الیکشن میں ہارنے والی سیاسی جماعتیں کہیں میں نہ مانوں میں نہ مانوں کی رٹ لگا کر ملک میں ایک مرتبہ پھر سیاسی انتشار کا ماحول نہ پیدا کر دیں جس سے جیتنے والی جماعتوں کو اقتدار کی منتقلی گراں ہو سکتی ہے اور عوام کے ووٹوں سے کامیاب ہونے والی سیاسی پارٹی کو اقتدار جتنی دیر سے ملے گا وہ ملک کی بقاءکے واسطے سم قاتل ہو گا۔