مری کے پہاڑ اسلام آباد سے ایک ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پرہیں‘ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے شمالی علاقوں کی صورت میں حسن اور خوبصورتی عطا فرمائی ہے‘ لیکن اس وقت جب لوگ شمالی علاقوں یعنی کاغان‘ ناران‘ بلتستان‘ چترال کم کم جاتے تھے تفریحی مقامات میں اس وقت کوہ مری کا مقام پہاڑوں کی طرح اونچا تھا پورے پاکستان سے عموماً اور پنجاب سے خصوصاً لوگ گرمیوں کے موسم میں جوق درجوق پہاں چلے آتے ہیں سردیوں کا موسم ہو تو برف باری کے نظارے دیکھنے چل پڑتے ہیں مجھے یاد ہے کئی سال پہلے بلکہ دو تین دہائیاں قبل جب اسلام آباد جون کے مہینے میں گرمی کی دھوپ سے جل رہا تھا ہمارا مری کا اچانک پروگرام ہمیں ایسی سردی کے شہر میں لے گیا کہ وہاں ٹھنڈ سے ہونٹ نیلے پڑ رہے تھے حالانکہ صرف گھنٹہ ڈیڑھ کی مسافت پر رب نے کوہ مری کو عجیب قدرت اور حسن دے دیا ہے اب بھی ہمارا پروگرام مری کا اس لئے بنا کہ گزشتہ8سال سے میں مری نہیں جا سکی تھی اور مری کی یاد بہت آتی ہے دوست سہیلیاں کہتی ہیں مری میں کیا رکھا ہے ایک مال روڈ‘ اور یہی مال روڈ اس کو دنیا کے ہر تفریحی مقام میں ممتازرکھتی ہے دنیا کے خوبصورت ترین علاقوں میں گھومو پھرو لیکن جو لطف مری کے مال روڈ میں آتا ہے وہ شاید ہی ہمیں کہیں اور آتا ہو موٹر وے نے مری جانے کے راستوں کو اگرچہ آسان کر دیا ہے لیکن وہ جو رستے میں حسین و جمیل افسانوی موڑ پڑتے تھے اور گہرائیوں میں دل خوبصورتیوں سے گھائل ہوتا تھا وہ سب پکی سڑک نے تبدیل کردیا ہے گاڑیاں اب فراٹے بھرتی ہوئی تیزی سے گزر جاتی ہیں وہ جو پہاڑوں پر بل کھاتی ہوئی سڑکوں کی خوبصورتی اور ایک قطار میں گاڑیوں کا آگے پیچھے چلنا سب بہت دور جاچکا ہے‘ راستے میں پانیوں کے چشمے‘ ان کے بہتے ہوئے پانیوں سے گلاسوں‘ کٹوروں کے بھرنے کا چارم‘ پکوڑوں کے پکوان سے لطف اندوز ہونا‘ موٹر وے نے اس دلچسپی کو بھی نگل لیا ہے‘ اگر چہ پرانی سڑکیں بھی موجود ہیں لیکن انسانی فطرت ہے کہ انسان رک رک کر چلنا پسند نہیں کرتا وہ اپنی گاڑی کے دوڑانے کے موڈ میں ہوتا ہے کام کاج والے دنوں میں مری جانے کا یہ فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ بے تحاشا ہجوم میں تھوڑی کمی ہوتی ہے ہم لوگ کشمیر پوائنٹ پر موٹروے سے ہوتے ہوئے پہنچ گئے کشمیر پوائنٹ پر گورنر ہاؤس آج بھی سراٹھائے کھڑا ہے ہم نے تصویریں بنانا شروع کیں چوکیدار نے کمال مہربانی سے اس بات کی اجازت دی اور اب ہم بھی لمحات کو یاد گاربنانے میں لگ گئے قریب ہی ایک مقامی آدمی سیبوں کا ٹوکرا سجائے زمین سے ذرا اونچے ٹبے پر بیٹھ کر ہم واحد سیاحوں کو دیکھ رہا تھا ذرا گہرائی کی سڑک پر چلے گئے اف اتنی گہری کھائی والی گہرائی کہ سنبھلنا مشکل ہوگیا ایک کھلے میدان میں چارپائیوں پر قالین بچھے ہوئے اور چھوٹے سے کھوکھے کو سنبھالے ہوئے بوڑھا بابا گہرائیوں میں سیاحوں کے انتظار میں چشم براہ تھا پوچھنے پر بتایا چائے کا کپ70روپے کا ہے‘بسکٹ کا پیکٹ بھی اتنی ہی قیمت کا تھا چھوٹے چھوٹے جھولے بھی لگے ہوئے تھے ہم نے چائے کا آرڈر دیا اور خوبصورت پر رب کی قدرت کی داد دینے لگے چائے گرم اور عمدہ تھی ہمارے دیکھا دیکھی کچھ اور سیاح بھی آگئے اور چائے کیلئے کھوکھے کے مالک سے رجوع ہوئے اس طرح غریب دکاندار کی آج کی دیہاڑی تو لگ گئی واپس پہاڑ پر چڑھنے کا تجربہ کچھ اچھا نہ تھا لمبی واک کرنے کیلئے گہرائی میں واک ٹریک پر چلنے لگے دوکلومیٹر کا فاصلہ چیڑھ کے درختوں کی خوبصورتی دیکھتے ہوئے گزر گیا اور میں حیران ہوئی جب میں نے پیپل کا درخت مری میں دیکھا‘کینیڈا کے قومی نشان والا یہ درخت میں نے پاکستان میں پہلی مرتبہ دیکھا تھا یہ درخت انتہائی سرد علاقوں کا درخت ہے اس کے پتے میٹھے ہوتے ہیں اور کینیڈا میں اسکے پتوں سے سیپل سیرب بنایا جاتا ہے جو مختلف انگریزی کھانوں پر ڈال کر کھایا جاتا ہے اور اب ہم نے مال روڈ کو جانا ہی تھا اس کے بغیر مری کا ٹرپ کبھی مکمل ہو ہی نہیں سکتا گاڑیوں کی پارکنگ کسی طرح بھی500 روپے کم نہیں ہے اورمال روڈ پر ہر قسم کی گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہے اور یہی اس روڈ کی خوبی ہے کسی بھی ذہنی دباؤ کے بغیر بچے بوڑھے خواتین جوان مال روڈ پر بے دھڑک گھومتے ہیں یہ تقریباً ایک سوا کلومیٹر کا پہاڑی راستہ ہے جو پہلے اترائی میں چلتا ہے اور واپسی پر چڑھائی بن جاتی ہے اس روڈ کے دونوں اطراف میں ہوٹل اور شاپنگ سنٹر ہیں اب کے مری کو میں نے بڑا تبدیل پایا مقامی دوکانوں کے علاوہ بڑی خوبصورت جدید ترین دوکانیں بھی موجود ہیں‘ یہاں پرایسے سٹور بھی موجود ہیں جن کاڈالر کے گھٹنے بڑھنے سے گہرا تعلق ہے امیر کبیر ماں باپ کے بچے ڈالراموں کو منافع دینے میں شدومد سے اپنا حصہ ڈال رہے تھے ہم نے بھی ڈالراما سے چند جدید اسٹیشنری کے آئٹم اور کچھ ثقافتی اشیاء خریدیں‘ مقامی دکانوں تک پہنچتے پہنچتے کئی بار بنچوں پر بیٹھنے کا موقع ملا کھانے کے ریستوران اپنی مخصوص ٹکاٹک کی آوازوں سے سیاحوں کو اپنی طرف راغب کررہے ہیں اب انگریزی کھانوں کے ریستورانوں نے مقامی کھانوں کے کاروبار کو کافی حد تک متاثر کیا ہے کیونکہ مری میں آنے والے سیاحوں کا تعلق زیادہ تر اونچے طبقے سے ہوتا ہے میری نظر پشاور کے مشہور تکہ کے بورڈ پر پڑی تو دل پشاور کانام ہی پڑھ کر خوش ہوگیا ہمارا پشاور کھانوں کی لذت اور ذائقہ میں اپنی مثال آپ رکھتا ہے اور یہاں بھی اوپر کی منزل پر شیشوں کے اندرسے لٹکے ہوئے نظر آرہے تھے اور پٹھان چہرے پر کڑاھیاں بنانے کی تیاریاں کر رہے تھے اپنے شہر کے لوگوں کو دیکھ کر ویسے ہی خوشی ہوتی ہے ایک بہت بڑا بینر لگا ہوا تھا دیوار پر جس پر آئی لو مری لکھا ہوا تھا سارے الفاظ بڑے رنگین حروف میں تھے سب لوگ اس کے ساتھ تصاویر کھنچوا کر خوشی محسوس کر رہے تھے ہم بھی اس خوشی سے محروم نہ رہے‘ خشک میوہ جات کی بے شمار دکانیں‘ ہوٹلوں کے باہر آوازیں کرتے ہوئے لوگ کہ ان کے ہوٹل میں کمرے اچھے اور سستے ہیں‘اتنے بھکاری دیکھنے کو ملے جن میں چھوٹے چھوٹے بچے بھی شامل تھے مقامی لوگ شاید بہت غریب ہیں ان کی بے چارگی‘ سفید پوشی اور غربت ناقابل بیان ہے سکولوں کے طالب علموں کی ٹولیاں پکنک منانے آئی ہوئی تھی ہم بھی ڈاکخانے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے کوہ مری جاؤ اور ڈاکخانے کی سیڑھیوں پر نہ بیٹھو تو مری کی سیر نامکمل ہوتی ہے طالب علموں نے ڈھولک کی تھاپ پر خوب ڈانس کرکے اپنے اساتذہ اور باقی سیاحوں کو بھی محظوظ کیا بس یہی مری کا حسن اور خوبصورتی ہے جس کیلئے بار بار مری جانے کو دل چاہتا ہے۔