مقا می دانش

 
لوک ورثہ ، لو ک کہا نی ، لو ک شاعری وغیرہ کو اردو میں مقا می دانش کا عام فہم نا م دیا گیا ہے اس میں دستکاریاں بھی شامل ہیں مصوری اور مو سیقی کے فنون بھی شامل ہیں یہ ایسا علم ہے جو گاﺅں ، دیہات میدانوں یا پہا ڑی وادیوں میں انسا نی تجر بات سے جنم لیتا ہے اور انسا نی تجربات میں ایسی یکسا نیت ہوتی ہے کہ مشرق اور مغرب کے فاصلے سمٹ کر مٹھی میں آجا تے ہیں‘ اسلا م آباد میں وفاقی حکومت کے ورثہ ڈویژن نے لو ک ورثہ شکر پڑیاں میں لو ک میلہ کے دوران اس مو ضوع پر تین روزہ کانفرنس کا اہتمام کیا تو پورے ملک ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے چیدہ اہل قلم کو مدعو کیا جنہوں نے مقا می دانش کے حوالے سے تحقیقی مقا لات پیش کئے ، پشاور سے پرو فیسر اباسین یو سفزئی اور ڈاکٹر سمیع الدین ارمان نے پختو ن ولی اور صو فی روا یت پر الگ الگ مقا لا ت پیش کئے ‘آزاد کشمیر سے ڈاکٹر مقصود جعفری اور افضل بٹ نے شاہ ہمدان اور کشمیر ی شال پر اظہار خیال کیا ، بلتستان کے احسان دانش کا مقا لہ صوفی روایت پر تھا جبکہ گلگت کے عبدا لخا لق تاج نے مقا می رسوم و رواج کے مٹتے نقوش پر روشنی ڈالی اور مقا می دانش کو بیرونی ہواﺅں کی یلغار سے محفوظ رکھنے کی ضرورت پر زور دیا ‘کا نفرنس کے اجلا سوں پر صو فی روایات اور صو فیا کی تاریخ کا غلبہ رہا صو فیا کی تاریخ پر ڈاکٹر تنویر انجم ، ڈاکٹر شہباز علی ، ڈاکٹر اختر جند رانی اور ڈاکٹر سمیع الدین ارمان کے مقا لات متاثر کن تھے‘عالمگیر کے پڑدادا جلا ل الدین محمد اکبر کے نو رتنوں میں تان سین جیسا عظیم مو سیقار بھی شامل تھا خان خا نان ، ابوالفضل اور فیضی بھی مو سیقی کے ساتھ شفف رکھتے تھے فیضی کا باپ ملا مبارک فن مو سیقی کا ما ہر تھا ایک بار شہنشاہ اکبر نے تان سین سے کہا کہ راگ دیپک ملا مبارک کےلئے گاﺅ جب راگ ختم ہوا تو باد شاہ نے داد طلب نظروں سے ملا مبارک کی طرف دیکھتے ہوئے پو چھا کیسا ہے ؟ ملا مبارک نے کہ ” گا لیتا ہے “ محبت اور خد مت صوفیا ءکا متفقہ مسلک ہے کوئی صو فی مکتب فکر اس مسلک لو ک میلہ 1981ءمیں شروع ہوا‘ 1986ءتک یہ میلہ اتنا مقبول ہوا کہ سارک مما لک کے دست کار بھی اس میلے میں شرکت کرنے لگے ، میلے کے مو قع پر نیشنل کرافٹس کونسل کا جنرل باڈی اجلا س بھی ہوا کر تا تھا اور ہر سال ایک بڑے فنکا ر کی دستار بندی کی جا تی تھی کئی فنکاروں کو پرائیڈ آف پر فارمنس کے لئے نا مزد کیا جا تا تھا اس کے پس منظر میں فیض احمد فیض ، عکس مفتی ، خا لد جا وید ، آدم نیئر ، شمیم زیدی ، اقبال جتو ئی ، مظہر الاسلام اور کئی دیگر اہم شخصیات کی محنت تھی خا لد جا وید کا کہنا ہے کہ لو ک ورثہ کی ریسرچ ٹیم نے لو ک فنکاروں اور دستکاروں کی تلا ش و جستجو میں 1976ءسے لیکر 1996ءتک 20سال میں 8لا کھ کلو میٹر کا سفر طے کیا فنکا روں اور دستکاروں کو تلا ش کیا ۔
 فن کے نادر نمو نے جمع کئے ، ملک کا عظیم الشان نسلیا تی اور بشریاتی ورثہ عجا ئب گھر قائم کیا ، 25لا کھ گھنٹوں کی آڈیو اور ویڈیو ریکارڈ نگز پر مشتمل نیشنل ہیرٹیج آرکائیو وجو د میں آئی کانفرنس کی نما یاں بات یہ تھی کہ ڈاکٹر شمیم زیدی ، اقبال جتو ئی اور خا لد جا وید نے مختلف اجلا سوں میں شرکت کر کے اپنے تجر بات سے حا ضرین کو مستفید کیا ‘کا نفرنس کے انعقاد میں ورثہ اور ثقا فت کے نگران وزیر جما ل شاہ کی کوششوں کا بڑا ہاتھ تھا ڈاکٹرزوبیہ سلطانہ نے اہل قلم کو یکجا کر نے میں تند ہی سے کا م کیا اس سلسلے میں یونیسکو نے فنی اور ما لی تعاون سے کا نفرنس کو کا میاب بنا یا ‘یو نیسکو کی ڈاکٹر کر یسٹینا، مسٹرجواد اور مریم خود بھی کانفرنس میں شریک رہیں لو ک میلہ میں خیبر پختونخوا کا بہت بڑا پو یلین تھا‘ چترال کے دستکاروں کو اس میں جگہ نہیں ملی تو کشمیر پو یلین میں جا کر سٹال لگا یا اس طرف جما ل شاہ صاحب کی تو جہ دلا ئی گئی تو انہوں نے تعجب اور افسوس کا اظہار کیا ۔