آج سے ہزاروں برس قبل ایک چیلے نے اپنے گرو سے پوچھا کہ وہ اسے ایسا نسخہ بتائیں کہ اس کی عمر لمبی ہو جائے گرو نے کہا جتنا کھاتے ہو اس کا آدھا کھاو¿ جتنا پانی پیتے ہو اس کا ڈبل پانی پیو اور جتنی واک کرتے ہو اس کا دورانیہ ڈبل کر دو آج کا ڈاکٹر بھی اپنے مریضوں سے اسی قسم کی بات کرتا ہے بسیار خوری سے اور وہ بھی جنک فوڈ کے کھانے سے طرح طرح کی معدے کی بیماریاں عام ہو رہی ہیں لوگوں نے پیدل پھرنا چلنا چھوڑ دیا ہے کسی زمانے میں کسی بھی فرد کو سکول یا کالج کھولنے کی اجازت اسوقت نہیں دی جاتی تھی کہ جب تک وہ اپنے تعلیمی ادارے کے اندر کھیل کود کے لئے گراو¿نڈ کا بندوبست نہیں کرتا تھا فزیکل فٹنس پر بہت زور دیا جاتا تھا سکول اور کالج میں روزانہ پی ٹی کا ایک پیریڈ بھی نصاب تعلیم کا حصہ ہوا کرتا تھا آج کل یہ بات نہیں ہے ان ابتدائی کلمات کے بعد چند عالمی اور قومی امور کا ذکر بے جا نہ ہوگا امام خمینی کو ایک مرتبہ ان کے رفقاءکار نے یہ تجویز دی کہ وہ اپنے بڑے بیٹے کو آ یت اللہ کے منصب پر فائز کریں تو انہوں نہ یہ کہہ کر ایساکرنے سے انکار کر دیا کہ اس کو انہوں نے دو مرتبہ قضا نماز پڑھتے دیکھا ہے اس لئے وہ ایسا نہیں کر سکتے ان کا یہ وہ بیٹا تھا کہ جب وہ چند برس پہلے فوت ہوا تو اس کا جو بینک بیلنس تھا وہ پاکستان کی کرنسی کے 48 روپے کے مساوی تھا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جو صحیح معنوں میں جمہوریت پسند لوگ ہوتے ہیں وہ موروثی سیاست کے خلاف ہوتے ہیں یہ امام خمینی کی
اپنے بچوں کی اعلیٰ اخلاقی تربیت کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اپنے والد کے سیاسی مقام اور منصب کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھایا ورنہ ہمارے ملک میں تو اعلیٰ سرکاری انتظامی مناصب پر فائز افراد کے بال بچے اپنے والدین کے اقتدار کا ناجائز اٹھاتے آئے ہیں۔ اس ملک کا عام آدمی اگر اس بات کا شدت سے منتظر ہے کہ ملک سے سرمایہ دارانہ نظام کا سفینہ کب ڈوبتا ہے تو دوسری طرف وہ ملکی سیاست سے موروثیت کے خاتمے کا بھی خواہش مند ہے۔ اس ملک میں پارلیمانی جمہوریت اس لئے نہ پنپ سکی کہ سیاست دانوں سے اس کے جو تقاضے ہوتے ہیں انہیں پورا کرنے کی کبھی بھی صدق دل سے کوشش ہی نہیں کی‘ انگلستان کا وزیراعظم تو ہر منگل کے روز ایک گھنٹے کے لئے خواہ مخواہ ہاو¿س آف کامنز کے فلور پر بہ نفس نفیس آ کر اپوزیشن پارٹی کے ہر سوال کا جواب دیتا ہے ہمارے سیاست دان اس جمہوری تقاضے کو آخر کیوں نہ پورا کر سکے‘ انگلستان کو پارلیمانی جمہوریت کی ماں قرار دیا گیا ہے اور وہاں جمہوریت نے جڑیں اس لئے پکڑی ہیں کہ وہاں کے سیاست دانوں نے اپنے عوام کو زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کی ہیں اور ایسے قوانین نافذ کئے ہیں کہ جن کے تحت وہاں کے
باسیوں کی معاشی حالت اتنی اچھی ہے کہ تیسری دنیا کے عوام کو انہیں دیکھ کر رشک آ تا ہے ‘انگلستان کا کوئی بھی باسی اس وجہ سے نہیں مرتاکہ بیماری کی صورت میں اسے دوا میسر نہ تھی اور نہ ہی وہ بھوک و پیاس سے ہلاک ہوتا ہے‘ امن عامہ اتنا اچھا ہے کہ لوگوں کی عزت نفس بھی محفوظ ہے اور پراپرٹی بھی انقلاب فرانس نے انگلستان کی اشرافیہ کی آنکھیں کھول دی تھیں اس کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ اگر اس نے عوام کو بنیادی ضروریات فراہم کرنے میں پس و پیش کی تو اس کا انجام بھی فرانس کی اشرافیہ سے مختلف نہیں ہو ہوگا اس لئے انگلستان کے سرمایہ داروں نے ملک میں سوشل ویلفیئر کاایک جامع پروگرام مرتب کیا جس سے وہاں کے غریب طبقے کے معاشی مسائل ختم ہو گئے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ پارلیمانی جمہوریت صرف اسی صورت میں پنپ سکتی ہے کہ اگر جمہور کے روزمرہ کے مسائل کا حکومت وقت کماحقہ خیال رکھے اور اس کے تمام ریاستی ادارے اپنی آئینی اور قانونی حدود وقیود کے اندر رہ کر کام کریں اور وہ خود احتسابی کے عمل سے بھی آ شنا ہوں بدقسمتی سے وطن عزیز میں پارلیمانی جمہوری نظام کی بات تو بہت کی گئی پر اس کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا اس لئے آج اس ملک کے باسی اس نظام کی افادیت پر سوالیہ نشان اٹھا رہے ہیں اور کئی لوگوں کے خیال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پورے پارلیمانی سسٹم کو ہی ری وزٹ کیا جائے۔ نہ فلسطینیوں پر اسرائیل کے ظلم و ستم میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے اور نہ وطن عزیز میں دہشت گردوں کی کاروائی میں‘ وطن عزیز میں الیکشن کے لئے پرامن ماحول کا ہونا ضروری ہے ۔