بڑی سکرین پر ایک سوال بار بار نظر آرہا ہے کہ انتخا بات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ اونٹ صحرائی جانور ہے اس کی سواری کے لئے اونٹ کا کسی ایک کروٹ بیٹھنا لا زمی ہے ورنہ سواری نہیں ہو سکتی، سوار کو اتر نے کے لئے ایک بار پھر اونٹ کو کسی نہ کسی کروٹ بٹھا نا پڑتا ہے اونٹ جس کروٹ بیٹھے سوار اسی طرف سے سواری کر تا ہے اور اس کروٹ سے اتر تا ہے جہاں سے اونٹ گزرتا ہے وہ راستہ ہمیشہ صاف نہیں ہوتا، خطرے سے خا لی بھی نہیں ہو تا اس لئے اونٹ کے کروٹ کا خا ص خیال رکھنا پڑتا ہے شتر بان دیکھتا ہے کہ اونٹ کو کس کروٹ بٹھا نا ہے اگر شتربان کوئی نہ ہو تو اونٹ کو ”شتربے مہار“ کہتے ہیں ایسے حا ل میں اونٹ کی مر ضی ہو تی ہے کہ وہ جہاں بیٹھے جس کروٹ بیٹھے‘ اردو میں ضرب المثل ہے ”اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی“ ہمارے ہاں جب بھی غیر یقینی حا لات پیدا ہوتے ہیں ان حالات کے بارے میں کچھ کہنے سے پہلے یہی جملہ دہرا یا جا تا ہے ”دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے؟“ اونٹ کے کروٹ کا انتظار کر تے کر تے وطن عزیز میں 2023ءکے عام انتخا بات 2024ءکی دہلیز پر پہنچ چکے ہیں ابھی انتخا بی شیڈول کا اعلا ن نہیں ہوا صرف 8فروری کی تاریخ دی گئی ہے اگر چہ انتخا بات کے انعقاد میں کوئی ابہام یا کنفیوژن نہیں ہے تا ہم انتخا بی مہم اور انتخا بی نتائج کے بارے میں چہ میگوئیاں ختم ہونے کا نا م نہیں لیتیں اس لئے مستقبل کی جمہوری حکومت اور حزب اختلاف کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنا بہت مشکل ہے اس مشکل کو ابہام اور کنفیوژن کا نا م بھی
دیا جا سکتا ہے تین طرح کے شکوک و شبہات پائے جا تے ہیں کہا جا تا ہے کہ تمام سیا سی جما عتوں کو برابری کی بنیاد پر آزادانہ طور پر انتخا بی مہم چلا نے کی اجا زت ہو گی یا نہیں اگر سب کو یکساں مواقع دیئے گئے تو انتخا بی دنگل کا نقشہ کیا ہو گا؟ بساط کس طرح بچھا ئی جائے گی؟ یہ بھی کہا جا تا ہے کہ انتخابات کے نتا ئج پر ساری جما عتوں کو کس طرح
اعتماد ہو گا؟ نتائج کے بعد کیسی حکومتیں بنیں گی؟ ممبروں کی خرید و فروخت کا راستہ روکا جائے گا یا نہیں؟ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وفاق اور صو بوں میں جو نئی حکومتیں قائم ہو نگی ان کے مقا بلے میں حزب اختلا ف اسمبلی میں رہے گی یا سڑ کوں پر آئیگی؟ اگر سڑ کوں پر آگئی تو انتخا بات کا کیا فائدہ ہو گا؟ جمہوریت کا کیا مستقبل ہو گا؟ ان باتوں کے لئے ہم سب کو اونٹ کے کسی کر وٹ کا انتظار ہے، اگر اونٹ سیدھی کروٹ بیٹھتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ تما م پارٹیوں کو انتخا بی مہم چلا نے کی اجازت ہو گی سب کو یکساں مواقع ملیں گے انتخابی نتائج کو تما م جما عتیں قبول کریں گی ہار نے
والی پارٹیاں جیتنے والوں کو مبارک باد کے پیغامات بھیجیں گی اور آنے والی حکومت ممبروں کی خرید و فروخت یا دھونس دھا ندلی کے بغیر خو ش اسلو بی کے ساتھ حلف اٹھائیگی حزب اختلا ف اسمبلیوں کے اندر رہے گی، سڑکوں پر خا نہ جنگی جیسی صورتحال نہیں ہو گی اور جمہوریت کی گاڑی اپنی پٹڑی پر خراماں خراماں چل پڑے گی یہ سب کے لئے خو شی کا مقام ہو گا اور یہ سب کی کامیابی ہو گی اس کے مقا بلے اگر انتخا بات کا اونٹ الٹی کروٹ بیٹھ گیا تو اس کے تما م نتائج الٹے ہونگے اللہ پا ک ملک اور قوم کو ایسے حالات سے بچائے اب یہ کہنا بے سود ہے کہ ملک نا زک دور سے گزر رہا ہے یا ملکی سلا متی کو سنگین خطرات درپیش ہیں کیونکہ یہ باتیں ہم 76سالوں سے دہرا رہے ہیں ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کہنے کی بات یہ ہے کہ ہمیں سب سے پہلے اپنی سیاسی جما عتوں کو سنوار نا ہو گا اور جمہوریت کا پہلا سبق سب کو پڑھانا ہو گا کہ جمہوریت میں اختلاف رائے ہوتا ہے جا نی دشمنی نہیں ہو تی، سیاسی جدو جہد میں نظریات کا ذکر ہو تا ہے، منشور کا ذکر ہو تا ہے، قوم کو مستقبل کا لائحہ عمل دیا جاتا ہے شخصیات اور ذاتیات کا ذکر نہیں ہوتا، ماضی کو کرید نے کا کام نہیں ہو تا اگر یہ سبق سیا سی جماعتوں نے یا د کر لیا تو بات آگے بڑھے گی ہمارے استاد ڈاکٹر محمد انور خان کہا کرتے تھے جمہوریت میں نظریات کی مثال گھوڑے کی ہو تی ہے شخصیات کی مثال تانگے کی ہے گھوڑے کو آگے باند ھا جا ئے تو تانگہ چل پڑے گا ورنہ کچھ نہیں بنے گا ہم گھوڑے اور تانگے کو چھوڑ کر اونٹ تک پہنچ چکے ہیں اب اونٹ کی کروٹ کا انتظار ہے۔