سگ گزیدگی کے کیسز میں ملک بھر میں اضافہ ہو رہا ہے جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ملک میں میونسپل کمیٹیاں اور میونسپل کارپوریشنیں اپنے فرائض منصبی میں غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہیں اسی طرح ارباب اقتدار نے ابھی تک آرمز آ رڈی نینس میں ترمیم کر کے غیر ممنوعہ ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی نہیں لگائی جس سے ملک کا امن عامہ بری طرح متاثر ہو رہا ہے ملک سے ہوائی فائرنگ کو بھی پولیس موثر انداز میں ختم کرنے کی کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔نہ جانے سیاست دان آپس میں سر جوڑ کر بیٹھ کر یہ فیصلہ کیوں نہیں کر پا رہے کہ وہ شہروں میں اپنے جلسہ عام مخصوص مقامات پر عشاءکی نماز کے بعد منعقد کیا کریں گے تاکہ خلقت خدا کے روزانہ کے معمولات زندگی متاثر نہ ہوں بات بات پر سڑکوں کو بند کر دینا کوئی اچھی روایت نہیں ہے‘ آج کے دور میں کہ جب انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب نے گھر گھر ٹیلی ویژن کو پہنچا دیا ہے ان کو چاہیے کہ وہ ٹی وی پر پرائم ٹائم خرید کر اس سے فائدہ اٹھائیں اور اس کے ذریعے عوام تک اپنا پیغام پہنچائیں بجائے اس کے کہ وہ ایسی حرکات کے مرتکب ہوں کہ جن سے عام آدمی کا روزگار متاثرہو۔ ٹریفک پولیس کو ان افراد کے ساتھ
بالکل نرمی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے کہ جو بغیر ہیلمٹ کے موٹر سائیکل چلاتے ہیں ‘اس ضمن میں پٹرول پمپس کوقانونی طور پر پابندی کیا جائے کہ وہ ان موٹر سائیکل چلانے والے افراد کو پٹرول دینا بند کر دیں جنہوں نے ہیلمٹ نہ پہن رکھا ہو کیونکہ ٹریفک کے حادثات میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہے‘ فاٹا کا محل وقوع ایسا ہے کہ یہ ملک کے حساس ترین علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے‘ واقفان حال کا کہنا ہے کہ پولیس وہاں چلی تو گئی ہے اور تھانے بھی بن گئے ہیں پر ابھی تک وہاں کے باسیوں نے اس نئے نظام کو دل سے قبول نہیں کیا یہ دیکھنا ضروری ہے کہ انضمام کے بعد کیا وہاں کے کرائمز ریٹ میں کوئی کمی بھی واقع ہوئی ہے یا نہیں ؟۔سوویت یونین کو لینن کے بعد ایک لمبے عرصے تک جو رہنما ملے وہ لینن کی طرح نہ تو سوویت یونین کے عوام میں پاپولر تھے جیساکہ پوڈگورنی خروشیف اور
گورباچوف اور نہ اس کی طرح دبنگ ‘ایک لمبے عرصے کے بعد ان کو کہیں جاکر پیوٹن کی شکل میں ایک ایسا رہنما ملا کہ جو روسی عوام کی بھی آنکھ کا تارا ہے اور جس کا روس کے دشمن ممالک کی لیڈرشپ پر بھی ایک دبدبہ ہے‘ روسی عوام میں اس کی مقبولیت اس کارن ہے کہ وہ سوویت یونین کی نشاةثانیہ چاہتا ہے اور ان وسطی ایشیا کے ممالک کو پھر سوویت یونین کا حصہ بنانا جانتا ہے کہ جو کبھی اس کا حصہ تھے اور روس کے سیاسی حریف ممالک اس سے اسلئے خائف ہیں کہ وہ لینن کی طرح ایک سخت گیر قسم کا لیڈرہے روس کے برعکس چین کو 1949ءکے چینی انقلاب کے بعد جو قیادت ملی ہے وہ نہایت دور اندیش اور محتاط قسم کی قیادت ثابت ہوئی ہے اس نے روزاول سے ہی چین کی ہر شعبہ زندگی میں مجموعی ترقی کے واسطے ایک جامع روڈ میپ مرتب کیا اوریہ فیصلہ کیا کہ 2014ءتک چین کو کسی بھی ایسے عالمی تنازعے میں نہیں الجھانا کہ جس سے اس کی انرجی غیر ضروری کاموں میں ضائع ہو جائے اور اس نے اپنی تمام تر توجہ چین کی ہر شعبہ زندگی میں ترقی کی طرف مبذول کی جس کا پھر نتیجہ یہ نکلا کہ 2014ءکے بعد عالمی سیاسی سائنسی اور عسکری افق پر چین اتنا زیادہ مضبوط ہو گیا کہ جس نے امریکہ جیسی سپر پاور کے چھکے چھڑا دئیے ہیں۔