شہر گھومنے پھر نے کو دو دن ملے تھے چار سیا حوں کو لیکر سیٹھی ہاوس دیکھنے گیا چاروں غیر ملکی تھے اور تاریخ ، لسا نیات ، بشریات کے پرو فیسر تھے انسانی سما ج اور معا شرت میں ان کی گہری دلچسپی تھی انہوں نے ہو ٹلوں اور دکا نوں میں پشاور کی ثقا فت کا بہت معمو لی حصہ دیکھا تھا سیٹھی ہاﺅس میں داخل ہو کر گویا وہ پشاور کی ثقا فت میں کھو گئے پشاوریوں کے رہنے سہنے کا انداز ، پشاوریوں کا طرز معاشرت، ان کے رہنے کے کمرے ، سونے کے کمرے ، مہمانوں کے لئے مختص بیٹھک ،تین منزلہ اور چار منزلہ گھروں میں مکینوں کی آماجگاہوں کے الگ الگ اسلوب ، ہر ایک کو اس کی ضرورت اور اس کی استعداد کے لحا ظ سے منا سب جگہ کی فراہمی پشاوریوں کی خصو صیت ہے پھر سیا حوں نے دیواروں کی آرائش اور فرش کی زیبائش میں دلچسپی لی ، جھرو کو ں کے سلسلے کو دیر تک دیکھا‘ لکڑی کے باریک کا م اور رنگوں کے ذریعے نقش و نگار کے نمو نوں میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا دیواروں پر لگے طاقچے ، طاقچوں میں رکھے ظروف ان کے لئے عجا ئب و نوادرات سے کم نہ تھے دورہ سیٹھی ہاﺅس دو گھنٹوں کا مشغلہ تھا اس کے بعد سیٹھی ہاﺅس اور قدیم و جدید پشاور پر دیر تک گفتگو ہوتی رہی جب سیٹھی ہاﺅس کے مکینوں نے شہر کے مضا فات میں نئی بستی کے اندر منتقل ہونے کا فیصلہ کیا تو بڑا سرمایہ دار آیا اُس نے یہ پرانا گھر خریدا ، اس کو مسمار کر کے 10منزلہ پلا زا بنا نے کا اعلا ن کیا لیکن شہر کے لوگوں نے اکھٹے ہو کر حکومت کو درمیان میں ڈالا ، حکومت نے منہ مانگی قیمت دے کر سیٹھی ہاﺅس کی ملکیت حا صل کر کے اس کو عجا ئب گھر بنا یا اور سیا حوں کے لئے کھول دیا شہریوں کی توانا آواز نے ایک تاریخی ورثے کو پلا زا بنا نے نہ دیا شہروں کی تو سیع پوری دنیا میں ہوتی ہے مگر اصول یہ ہے کہ تو سیع کی وجہ سے کسی شہر کا قدیم ورثہ ضا ئع نہیں ہوتا ، قدیم ورثہ محفوظ رہتا ہے ، اکیسویں صدی میں شا می روڈ اور حیات آباد کی پُر تعیش کو ٹھیاں سب کی پہلی تر جیح ہو تی ہیں گنج اور گھنٹہ گھر کے قدیم مکا نات کی تاریخی حیثیت پر سمجھو تہ کر کے مضا فات میں گھر بسا یا نہیں جا تا خصو صاً پشاور کا قدیم تعمیراتی ورثہ ما ہرین کے لئے ہمیشہ دلچسپی کا مو ضو ع رہا ہے‘ مشہور مورخ ٹائن بی نے بھی اس کا خصو صی ذکر کیا ہے فداءاللہ صحرائی نے اس پر بڑا کا م کیا ہے شہر کی تو سیع کے ساتھ ساتھ قدیم ثقا فتی ورثے کو محفوظ کر نے کی بے شمار مثا لیں مو جو د ہیں‘ پڑو سی ملک چین نے ہر شہر کا قدیم ورثہ 100سال پہلے کی شکل میں محفوظ کر کے لو گوں کو وہاں بسایا ہے پا کستان کے ایک اور تاریخی شہر لا ہور میں گذشتہ تین عشروں سے قدیم عما رتوں کی بحا لی اور حفاظت پر کام ہورہا ہے 30سال میں 14بار حکومتیں تبدیل ہوئیں مگر ” والڈ سٹی پراجیکٹ “ یعنی اندرون حصار لا ہور کی بحا لی و حفا ظت کا منصو بہ جا ری رہا ، اس کے فنڈ میں کسی نے رخنہ نہیں ڈالا اس منصو بے کے کام میں کسی نے رکا وٹ نہیں ڈالی حکومت نے یو نیسکو (UNESCO) اور آغا خان ٹرسٹ کا ما لی و فنی تعا ون بھی حا صل کیا ہے مسجدوزیر خا ن ، شا ہی حما م اور دیگر تاریخی عمارات کی بحا لی کا کام مکمل ہو چکا ہے کام زور و شور کیساتھ جا ری ہے یہ ایک اچھی مثال ہے بد قسمتی سے پشاور کی مثا ل اس کے با لکل الٹ ہے اگر ایک حکومت تحصیل گور کٹھڑی میں کا م شروع کر تی ہے دوسری حکومت آکے اس کو بند کر دیتی ہے ایک حکومت نے شہر کے تاریخی حصار اور اس کے مشہور دروازوں کی بحا لی پر کا م کا آغاز کیا اگلی حکومت نے پورا منصو بہ لپیٹ کر سرد خا نے میں ڈال دیا ایک حکومت نے پشاور ہیری ٹیج ٹریلز کا منصو بہ شروع کیا اگلی حکومت نے فنڈ روک دیئے چنا نچہ پشاور چوہے اور بلی کے کھیل میں پھنس کر رہ گیا ہے اور قدیم ثقافت کا امین شہر اپنے ثقا فتی ورثے کے حسن سے محروم ہوتا جا رہا ہے ، آثار قدیمہ اور تاریخ کے ما ہرین کہتے ہیں کہ دنیا میں حصار اور دروازوں کے اندر واقع شہری آبادی کو تاریخی ورثہ قرار دیا جا تا ہے ہزاروں سال پہلے شہروں کو محفوظ کر نے کے لئے حصار کی ضرورت تھی شام ہوتے ہی دروازوں کو بند کیا جا تا تھا پشاور میں آسا مائی دروازے سے لیکر کا بلی ، لا ہوری اور ہشتنگری تک درجن بھر قدیم دروازے اس دور کی یا د گار ہیں غیر ملکی سیا ح پشاور کی تاریخ اور ثقا فت میں دلچسپی رکھتے ہیں جس طرح سیٹھی ہاﺅس پشاور کی قدیم تاریخ و ثقا فت کا شو کیس ہے اس طرح شہر کے اندر کئی دلچسپ مقا مات ہیں جو سیا حوں کے لئے دلچسپی کا باعث بن سکتے ہیں ۔