نورجہانوں کی کہانی

 
ایک مغل بادشاہ جہانگیر کی ملکہ تھیں اور دوسری برصغیر کی ایک مغنیہ دونوں منفرد خصوصیات کی مالک تھیں ایک کو قدرت نے شعر کہنے کاہنربخشا تھا اور وہ فارسی زبان کی شاعرہ تھیں وہ مغل بادشاہ جہانگیر کی ملکہ تھیں انہوں نے اپنی زندگی میں ہی یہ حکم صادر کر دیا تھا کہ ان کی وفات کے بعد ان کی قبر پر جو کتبہ نصب کیا جائے تو اس پر فارسی زبان میں ان کا کہا ہوا یہ قطعہ درج کر دیا جائے ۔”بر مزار ما غریباں نے چراغے نے گلے نے پر پروانہ سو زد نے صدائے بلبلے “جس کا ترجمہ یہ ہے کہ” میں اتنی بدقسمت ہوں کہ میرے مزار پر نہ تو کوئی چراغ جل رہا ہے اور نہ کوئی پھول پڑا ہوا ہے اور نہ ہی کسی پروانے کا جلا ہوا پر پڑا ہے اور نہ ہی کسی بلبل کے گانے کی آواز سنائی دیتی ہے “ آپ لاہور میں واقع ملکہ نور جہان کے مزار واقع شاہدرہ جائیں تو وہاں پر ملکہ نور جہان کے مندرجہ بالا قطعہ میں درج حقیقت پر ظاہر ہو جاتی ہے کیونکہ وہاں ہوُ کا عالم ہوتا ہے‘ اکا دکا انسان بھی نظر نہیں آتا‘ ہندوستان کی سابقہ ملکہ مٹی کی چادر اوڑھے ابدی نیند سو رہی ہیں‘ اسی طرح جس خطے میں ہم رہتے ہیں وہاں نورجہاں کے نام سے ہی ایک مغنیہ بھی گزری ہیں انہوں نے نامور موسیقاروں سے حاصل کردہ تربیت سے راگ راگنیوں پر عبور حاصل کیا‘ میڈم نور جہاں کو خدا نے ایک غریب پرور دل سے بھی نوازا تھا کوئی غریب غرض مند ان کے ہاں سے کبھی خالی ہاتھ واپس نہیں گیا ایک واقعہ جس کا ہم اب ذیل کی سطور میں ذکر کرنے لگے ہیں سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ وہ کس قدر غریب پرور خاتون تھیں ایک مرتبہ رات گئے جب وہ ایور نیو فلم سٹوڈیو لاہور کے ریکارڈنگ روم میں اپنا ایک گانا ریکارڈ کرا کر باہر نکلیں تو باہر دروازے پر مامور ڈیوٹی دینے والے چوکیدار کو غمزدہ پا کر جب اس کی وجہ اس سے پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس کی لڑکی شادی ہو رہی ہے اور لڑکے والے فرنیچر کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اس کے پاس اتنے پیسے کہاں ہیں کہ وہ فرنیچر کا بندوبست کر سکے یہ سن کر مادام نورجہاں چلی گئیں دوسرے دن جب وہ حسب معمول ریکارڈنگ کے واسطے آئیں تو گھر جانے سے پہلے اس چوکیدار کو ایک طرف بلا کر اس کے ہاتھ میں پیسوں سے بھرایک لفافہ تھما دیا جب اس نے گھر جا کر اسے کھولا تو اس میں پچاس ہزار روپے تھے یہ 1965 ءکی بات ہے جب اتنی رقم اچھی خاصی رقم ہواکرتی تھی اس طرح وہ غریب چوکیدار اس قابل ہو گیا کہ اپنی بچی کے واسطے فرنیچر کا بندوبست کر سکے۔اب ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تازہ ترین عالمی اور قومی خبروں پر‘غزہ میں اسرائیل فلسطینیوں کا قتل عام کر رہا ہے اور دنیا کا ضمیر بالکل نہیں جاگ رہا اب تو وہاں مسجد وں پر بمباری کر کے نمازیوں کو بھی شہید کیا جا رہا ہے۔ وطن عزیز سے جب تک کلاشنکوف کے استعمال پر پابندی نہیں لگائی جائے گی ملک میں دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہیں گے‘ صرف ایک ترمیم کی ضرورت ہے حکومت یہ حکم نافذ کرے کہ اگر کوئی دشمن دار اپنی حفاظت کے واسطے اپنے پاس کوئی اسلحہ رکھنا چاہتا ہے تو اسے غیر ممنوعہ بور کے اسلحے کا آرمز لائسنس جاری کیا جا سکتا ہے‘ البتہ ممنوعہ بور کے تمام قسم کے اسلحہ بشمول کلاشنکوف کے استعمال پر فوری پابندی لگنی ضروری ہے‘ جن لوگوں کے پاس اس قسم کا اسلحہ موجود ہے ان کو ایک ماہ کا نوٹس دیا جائے کہ وہ رضاکارانہ طور پر اسے اپنے نزدیکی تھانے میں جمع کرا دیں تھانیدار ان سے اسلحہ وصول کر کے ان کو رسید دے گا‘ حکومت جمع شدہ اسلحہ کی مارکیٹ ویلیو متعین کر کے ان کی قیمت ان کے مالکان کے حوالے کرےگی جو ممنوعہ بور کا اسلحہ تھانوں میں جمع ہو‘ اسے پھر افواج پاکستان اور پولیس کے استعمال میں لایا جائے‘یہاں پر ایک دلچسپ بات کا ذکر ضروری ہے کلاشنکوف کے خالق نے مرنے سے پہلے اس بات پر اپنے دکھ کا اظہار کیا تھا کہ اگر اسے یہ پتہ ہوتا کہ اس کی اس ایجاد سے دنیا میں ہزاروں لوگ ہلاک ہورہے ہیںتو وہ کبھی بھی اس کی تخلیق نہ کرتا ۔