عبدالرحیم گل‘ پشاور شہر کا نامور فنکار


عبدالرحیم گل کاتعلق پشاور شہر سے تھا وہ 1902ءمیں عبدالحکیم کے گھر پیدا ہوئے انکے والد کا قالینوں کا کاروبار تھا وہ اپنی اوائل عمری میں قائداعظم محمد علی جناحؒ سے ملنے کا ذکر بھی کرتے ہیں یہ سن1936ءتھا جب قائداعظم محمد علی جناح اسلامیہ کالج میں تشریف لائے تھے اور عبدالرحیم گل اسی سال اسلامیہ کالج میں داخلہ لےکر تعلیم شروع کرنےوالے تھے وہ اپنے ہائی سکول کی یاداشتوں میں علاقہ عنایت المشرقی کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ وہ ان کے ہائی سکول میں پرنسپل تھے انکی خوش خطی سے متاثر ہوئے جبکہ عبدالرحیم گل انکے پروقار انداز سے نہایت متاثر ہوئے‘ عبدالرحیم گل نے اپنے ایک سکول کے دوست کیساتھ دیواروں پر پینٹنگ کا کام شروع کیا جو بعد کے سالوں میں انہوں نے پیشے کے طور پر اپنایا دیواروں پر رنگ اور برش سے اشتہار لکھتے لکھتے بمبئی جا پہنچے اور اس وقت کی معتبر فلموں کے سٹاف میں شامل ہو کر کئی بہترین فلموں کی دیواروں کی پینٹنگ حاصل کی انہوں نے برصغیر کی فلم انڈسٹری میں بہت بڑا نام چھوڑا ہے اور پاکستان بننے سے پہلے فلم انڈسٹری کے بڑے بڑے فنکاروں کیساتھ کام کیا ہے‘ ایبٹ آباد میں مستقل سکونت اختیار کی اور ایبٹ آباد میں سائن بورڈ بنانے میں بے انتہا داد پائی 1939-43ءمیں واٹر پینٹ میں دسترس حاصل کرچکے تھے اور اس فن کو اپنی روٹی روزی کا ذریعہ بنالیا کیونکہ ان کو سائن بورڈ اور دیواروں پر اشتہار پینٹ کرنے کا مناسب معاوضہ ملنے لگا تھا انہوں نے اپنی یاداشتیں قلم بند کیں‘ اگرچہ وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن اپنی یاداشتوں میں بہت سی کہانیاں چھوڑ گئے ہیں اباسین آرٹس کونسل نے ان کو فروغ ایوارڈ سے بھی نوازا تھا عبدالرحیم نے اپنا تخلص گل رکھا اس مناسبت سے وہ عبدالرحیم گل کے نام سے مشہور ہوئے ان کی ڈائری سے نہ صرف ان کی تعلیم‘ ان کے خاندان‘ ان کے فن کے بارے میں معلومات ملتی ہیں بلکہ سوسال پہلے کے پشاور کے حالات بھی جگہ جگہ ملتے ہیں ان کی ڈائری جو شائع نہیں ہوئی لیکن انکے آج کے بزرگ بچوں نے سنبھال کر رکھی ہوئی ہے اس میں بہت سی یادیں پشاور کے بارے میں ملتی ہیں ان کی یاداشتوں سے کچھ اقتباسات ان کی یادوں کی صورت میں درج ذیل ہیں عبدالرحیم گل لکھتے ہیں کہ میری عمر چار سال تھی ابتدائی تعلیم مدرسہ جٹاں پشاور شہر سے حاصل کی مدرسہ جٹاں یکہ توت دروازے کے اندر بائیں جانب ایک فراخ سڑک پر چوبی دروازے کے اندر بڑا مدرسہ تھا اندر سرسبز کیاریاں تھیں سڑک والی جانب کھڑکیوں کی قطار تھی استاد حاجی صاحب بہت فصیح و بلیغ اور خوش آواز تھے اندر شہر سنار بازار میں مسجد مہابت خان مشہور جامع مسجد ہے بالکل اسی طرز ڈیزائن میں لاہور کی بادشاہی مسجد یا دہلی کی جامع مسجد ہے مہابت خان بھی مغلیہ دور کا بڑا سردار جرنیل تھا ہمارے استاد محترم اس مسجد کے مینار پر چڑھ کر آذان دیتے تھے ان کی آواز بلند تھی ہمارے گھر کے سامنے گورگٹھڑی تھی ہیڈکوارٹر پولیس‘ اور تحصیل ہم منہ اندھیرے یہاں نماز ادا کرتے تھے‘ ہمارے والد صاحب فجر کی نماز ادا کرتے تھے لیکن کاروبار کی وجہ سے باقی نمازیں وہاں کی مسجد میں ہوتی تھیں گورگٹھڑی کی عمارت بھی مغلیہ دور کی ہے جیسے سرائے جہاں بیگم جو90 کنال رقبہ میں ہے پشاور شہر کا سب سے اونچا علاقہ ہے گورگٹھڑی کی چار دیواری قلعہ نما تھی اور دو بلند بالا چوبی دروازے ایک مغرب اور ایک مشرق کی جانب تھے ان پر دن رات پہرہ رہتا تھا رات کو گیٹ بند ہو جاتے تھے چھٹی کے دن ہم محلے کے ہمسائے سب لڑکے لڑکیاں بڑھ کے ر بہت بڑے گھنے درخت کے سبز پتوں کے سائے میں کھیلتے تھے اس درخت کا تنا بہت بڑے گھیر والا تھا ہمارے بڑے بازار سے نیچے سیٹھیوں کا محلہ تھا اور سیٹھی مسجد بھی تھی اس مسجد کے بےڑ دالان میں چھت سے نکلتے بلوریں فانوس جھاڑ جشن تراویح کو باغ بہاراں بناتے تھے اور پھر ان بلوریں جھاڑوں کے شمعدانوں سے روشنی پھیل کر رمضان کی خوشیاں دوبالا ہوتی تھیں پشاور کی تاریخ آریاﺅں کی آمد‘ گندھارا تہذیب سکندراعظم کے دور حکومت میں‘ مسلمان سائنسدان‘ مغلیہ حکومت اور مسلمان بادشاہوں کا دور اور بہت کچھ قابل قدر اور تاریخی شواہد بمعہ تصاویر محمد ابراہیم ضیاءکی کتاب’ ماضی کے دریچوں سے‘ میںپڑھی جا سکتی ہے‘ ہماری دوکان قالینوں کی تھی اور شیر چیتوں کی کھالیں ان کے ساتھ ان کی سبز آنکھیں بھی اصل کے مطابق ہوتی تھیں تھیٹر کمپنی والے ہم سے لے جاتے تھے مجھے یاد ہے الفرید تھیٹر اور ایک بمبئی کے سیٹھ تھے یہ بجوڑی دروازے کے اندر نمک منڈی میں بڑی بڑی سرائیں ہوتی تھیں کسی زمانے میں یہاں قافلے ٹھہرتے تھے ہمارے وقت میں تھیٹر لگتے تھے نمک منڈی کے علاوہ دو دروازہ کے باہر دائیں ہاتھ پیر بخش بلڈنگ ہے( جو اب مسمار کی جا چکی ہے )سامنے بھی سرائیں تھیں اس میں بھی بڑے تھیٹر آتے تھے یہ لوگ پشاور سے کھالیں لے جاتے تھے میں نے ان دونوں کے تھیٹر دیکھے ہیں مغرب سے جو انگریز سیاح آتے تھے وہ یہ کھالیں سجاوٹ کیلئے لے جاتے تھے ریشمی دستکاری والے پردے‘ ویکس کے پردے‘ میز پوش‘ رومال دستکاری والے ریشمی مرغابیاں‘ ہاتھ سے بنے ہوئے پرندے انگریز بڑے شوق سے خرید تے تھے پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا ہماری دوکان کے بالکل سامنے سکول تھا سناتن دھرم سکول‘ باہر کٹ پیس کپڑے والوں کی دوکانیں تھیں ایک بڑی قدیم دندان ساز ڈی این کیمفر کی دوکان تھی جو اب تک اسی نام سے اس کے بیٹے پوتے وغیرہ چلا رہے ہیں یہ ڈاکٹر والد صاحب کا دوست بھی تھا سکول بلڈنگ کے آخری کونے پر ایک مذو مول چند کی قالین کی بڑی دکان تھی اور کابلی دروازے کے اندر محمد یعقوب قالین فروش اور بڑے رئیس حاجی صفدر علی تھے 1934ءمیں آٹھویں جماعت میں تھا والد صاحب ہمارے علاوہ پانچ دوسرے بچوں کو بھی میٹرک تک تعلیم دلوائی جو یتیم اور بہت غریب تھے‘ حضرت عبداللطیف بری امام شریف کی ڈالی عرس کے دنوں میں دوسرے عقیدت مندوں اور فقیروں کیساتھ نورپور شایاں لے جاتے تھے یہ ڈالی پشاور گورگٹھڑی کے عقب سے گٹھالی شریف سے جاتی تھی اور پیدل کندھوں پر اٹھا کر لے جائی جاتی تھی جگہ جگہ ان کا استقبال ہوتا تھا جھنڈے اٹھائے‘ راستے میں قصبوں میں فقیر دھمال ڈالتے جاتے تھے جب 1930ءمیں پشاور میں گو لی چلی تو پشاور پر یہ بڑا سخت وقت تھا پھر کوئی غیر ملکی پشاور آنے کا نام نہ لیتاتھا کیونکہ گوروں کا غول شروع ہوگیا تھا ہمارا کاروبار ان غیرملکی سیاحوں پر تھا اس لئے مالی حالات بگڑ گئے میں آٹھویں جماعت میں تھا میرے پاس کتابیں نہ تھیں یونیورسٹی بورڈ کا امتحان تھا ادھر ادھر سے کتابیں لے کر گزارا کیا۔1935ءمیں ہمارے والد صاحب بیمار ہوگئے ہمارا خاندانی ڈاکٹر تھا جو چوک یادگار کے پاس تھا جب دکھایا تو میرے والد نے ڈاکٹر کے پاس ہسپتال جانے سے انکار کر دیا کہنے لگے میرا وقت پورا ہو چکا ہے ۔
میرے آخری ٹرم کے امتحان تھے والد صاحب فوت ہوگئے اس وقت آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا پورے پشاور میں اس وقت سب سے بڑی دوکان ہماری تھی اس کے تین حصے تھے بیرونی حصہ صحن نما تھڑا تھا اسکے بعد اندرونی دوکان‘ باہر چوبی بڑے در کا مضبوط دروازہ تھا دوکان کی طرف منہ کریں تو ناپید پھولدار پودوں کے خوبصورت گملے‘ تکون نما گیلری تھی سیڑھیوں کی طرح ملنسار تھا والد صاحب نایاب پودوں کے شوقین تھے اور دور دراز سے بے مثل پودے منگواتے تھے دوکان کے اندر ایک لمبا کمرہ تھاجو تین دوکانوں کے پیچھے کا حصہ تھا اس کمرے تو ڈرائنگ روم اور سلینگ روم کہتے تھے عصر کے وقت لنڈی ارباب کے تینوں بھائی اپنے تانگے پر آتے تھے تانگے کے آگے سفید گھوڑی ہوتی تھی ‘ ایک بھائی شعیب خان تھا جو ریلوے میں افسر تھا کبھی اپنی گاڑی میں آتا تھا یحییٰ خان اپنی کھیتی زمین اور کھیتی باڑی میں تھا ہماری دوکان کے ساتھ سوڈا واٹر بوتلوں کی فیکٹری تھی اور اوپر بالا خانے تھے یہاں اور نگزیب خان بیٹھتا تھا جو بیرسٹر تھا بعد میں وزیر بنا تھا کانگریس پارٹی کے سعد الدین بیرسٹر بھی یہاں بیٹھتے تھے جن کو جج کا عہدہ بھی ملا تھا ابا جی کے عزیز دوست تھے عصر کی چائے میں گاہے گاہے شریک ہوتے تھے۔(جاری)