اس ملک کے سیاست دانوں کو 1950 ءکی دہائی میں ایک چانس ملا تھا کہ جس میں اگر وہ چاہتے تو ملک میں صحت مند سیاسی روایات پر مبنی ایک پارلیمانی جمہوری نظام کی بنیاد ڈال سکتے تھے پر اس موقع کو محلاتی سازشیں کر کے گنوادیا گیا سات برسوں میں سات کے قریب وزیر اعظم بدلے گئے محمد علی بوگرا چوہدری محمد علی‘ ابراہیم اسماعیل چندریگر حسین شہید سہروردی اورملک فیروز خان نون نے چھوٹے چھوٹے دورانیہ کے لئے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا ‘1970 ءکا الیکشن شیخ مجیب الرحمان نے جیت لیا تھا تو انہیں وزیر اعظم بننے کیوں نہ دیا گیا اور اس سوال کا تسلی بخش جواب کوئی نہیں دے پا رہا اس کے بعد بھی 1990 کی دہائی میں سیاست دانوں کو ایک مرتبہ پھر قدرت نے موقع فراہم کیا کہ وہ ماضی میں کی گئی غلطیوں سے سبق لے کر آئندہ کے لئے کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جو ملک میں آمریت کی راہ ہموار کرے‘ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری سیاسی لیڈرشپ سے بھی وقتاً فوقتاً غلطیاں ہوتی رہی ہیں اگر مندرجہ بالا برسوں میں جب وہ صاحب اقتدار تھے اور ملک کے سیاہ و سپید کے مالک بھی تو وہ اگر صحیح ترجیحات کا تعین کر کے عوامی مسائل کا حل ڈھونڈتے تو کسی طالع آزما کو ایوان اقتدار میں گھسنے کی جرات نہ ہوتی ملک کی کسی سیاسی جماعت نے بھی ملک سے موروثی سیاست کے خاتمے کےلئے کوئی انتخابی اصلاحات نہیں کیں یہ کس قسم کی جمہوریت ہے کہ باپ کے بعد بیٹا ‘بیٹی بھائی یا اور کوئی نزدیکی رشتہ دار ہی سیاسی پارٹی میں کلیدی عہدہ پر فائز رہے کسی بھی سیاسی پارٹی نے ملک میں زرعی اصلاحات کی جانب کوئی قدم نہ اٹھایا ۔کیا پرانی کتابوں میں ملکیت کا لفظ آپ کو نہیں ملتا اس کی جگہ متاع کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد یہ تھی کہ عوام اراضی میں کاشت کریں اور بنی نوع انسان اس سے اپنی زرعی ضروریات پوری کریں یہ ملکیت کا لفظ تو مفاد پرستوں نے بہت بعد میں استعمال کرنا شروع کیا۔ممتاز پرانے سیاسی لیڈر گوہر ایوب اگلے روز اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ہیں وہ کافی عمر رسیدہ بھی تھے اور مختلف عوارض میں مبتلا بھی‘ وہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے سب سے بڑے فرزند تھے کسی زمانے میں وہ قومی اسمبلی کے سپیکر بھی رہے تھے ہماری ان سے چند ماہ قبل اسلام آباد میں ملاقات ہوئی تھی جس کے دوران ہمارے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے ہمیں بتایا تھا کہ جب ان کے والد صدر پاکستان تھے اور ان کو غیر ممالک کا دورہ کرنا ہوتا تو وہ کمرشل فلائٹ میں سفر کرتے اور ان کے ساتھ ان کا صرف ملٹری سیکرٹری جاتا اور وہ چاررٹرڈ جہاز میں اپنے ساتھ خوشامدیوں کو جہاز بھر کر سرکاری خرچ پر لے جانے سے گریز کرتے زیادہ سے زیادہ ان کے ساتھ ان کا پبلک ریلیشنز آفیسر جایا کرتا تھاگوہر ایوب خان عرصہ دراز سے صاحب فراش تھے۔ آ رمی چیف نے بالکل درست فرمایا ہے کہ طاقت کا استعمال صرف ریاست کا حق ہے پاکستان تمام پاکستانیوں کا ہے ان کا یہ کہنا بھی بالکل بجا ہے کہ ریاست کے علاہ کسی بھی ادارے یا گروہ کی طرف سے طاقت کا استعمال اور مسلح کاروائی ناقابل قبول ہے ۔سردار مہتاب خان عباسی کا یہ اعلان کہ وہ آئندہ الیکشن بطور آزاد امید وار لڑیں گے‘ ن لیگ کے لئے ایک جھٹکے کے مترادف ہے کیونکہ ماضی میں وہ نواز لیگ کے ایک متحرک لیڈر رہے ہیں اور اپنے حلقہ انتخاب میں وہ کافی اثرورسوخ کے مالک ہیں۔