دیہات میں تو شاید اتنا پرابلم نہ ہو پر شہروں میں قبرستان میں مردے دفنانے کیلئے دو گز زمیں کا حصول آئے روزمشکل ہوتا جا رہا ہے‘ اس مسئلے کی طرف لوکل گورنمنٹ کو خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے‘ اس پرابلم کو حل کرنے کا ایک آ سان طریقہ تو یہ ہے کہ میونسپل کمیٹیاں اور میونسپل کارپوریشنز ہر شہر میں جہاں کہیں بھی سٹیٹ لینڈ ہو اسے حاصل کر کے اس پر ماڈل قبرستان تعمیر کریں جس میں درخت بھی لگائے جائیں ‘پانی کا بھی وافر بندوبست ہو ‘سبزہ زار بھی اس کے اندر موجود ہوں اور رات کے وقت لائٹس کا بھی انتظام ہو ہر قبرستان کی رکھوالی کے واسطے گور کن کے علاوہ چوکیدار بھی تعنیات کئے جائیں‘ اگر کسی شہر میں سٹیٹ لینڈ موجود نہیں تو لوکل گورنمنٹ اس مقصد کے حصول کیلئے زمین خرید سکتی ہے‘ قبرستان کے اندر نماز جنازہ ادا کرنے کے لئے مناسب جگہ جناز گاہ بھی تعمیر کی جائے اور نماز جنازہ پڑھانے کیلئے مولوی صاحب کی تقرری بھی ضروری ہو گی‘ اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے ہر شہر کے باسیوں کو مطلع کیا جائے کہ اگر کوئی فرد اپنی قبر بنوانے کے لئے ایڈوانس بکنگ کروانا چاہتا ہے تو وہ کروا سکتا ہے قبرستان کی رکھوالی کیلئے جس سٹاف کی تعنیاتی کا اوپر کی سطور میں ذکر کیا گیا ہے اس کے ماہانہ مشاہرہ کیلئے بے شک لوکل گورنمنٹ کے ادارے قبرستان ٹیکس کے نام پر ایک واجبی ماہانہ ٹیکس لگا سکتے ہیں‘ لوکل گورنمنٹ کے ادارے میت کو گھر سے قبرستان تک پہنچانے کیلئے ایمبولینس یا چھوٹے سائز کی بس کی سروس بھی فراہم کر سکتے ہیں اس قسم کی سہولیات سے میت کو نہایت ہی با عزت طریقے اور سلیقے سے سپرد خاک کیا جا سکتا ہے اگر دنیا میں عارضی قیام کیلئے ہم رہائشی کالونیوں کو بڑی شدو مد سے تعمیر کر سکتے ہیں تو قبرستان کی تعمیر کیلئے کیوں مناسب بندوبست نہیں کرتے کہ جہاں ہم نے ابدی خاک کی چادر اوڑھ کر سونا ہے ویسے بھی کتابوں
میں لکھا ہوا ہے اور بزرگوں سے ہم نے سنا بھی ہوا ہے کہ ہر انسان کا قبرستان کا چکر لگانا ضروری ہے تاکہ اس کا یہ احساس زندہ رہے کہ اس کا اصلی گھر یہی ہے کہ جس میں اس نے ازلی طور پر قیام کے واسطے ایک نہ ایک دن ضرور آ نا ہے جس سے کسی کو بھی چھٹکارا حاصل نہیں ہو سکتا ‘ موت سے کس کو رستگاری ہے اج تیری تو کل ہماری باری ہے ‘اس طولانی بحث کے بعد چند اہم قومی اور عالمی معاملات پر ایک طائرانہ نظر ڈالنا بے جا نہ ہو گا‘ جوں جوں الیکشن کے دن نزدیک آ تے جا رہے ہیں وطن عزیز کی بعض سیاسی پارٹیاں جو کل تک بظاہر یک جان دو قالب تھیں آج ان کے کئی رہنماایک دوسرے کے لتے لے رہے ہیں‘ یہ درست ہے کہ سیاست میں حرف آ خر نہیں ہوتا پر جس قسم کے غیر یقینی سیاسی حالات سے آج وطن عزیز کو واسطہ پڑا ہے اس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی۔ محکمہ موسمیات نے بالکل درست پیشنگوئی کی ہے کہ امسال غضب کا پالا پڑے گا آج کل سردی زوروں پر ہے اس موسم میں پانچ سال کی عمر سے نیچے عمر والے بچوں اور ساٹھ سال سے اوپر افراد کو خصوصی احتیاط کی ضرورت ہے کہ وہ ذرا سی بے احتیاطی سے نمونیہ کا شکار ہو سکتے ہیں موسیمیاتی تبدیلی سے پرانا موسیمیاتی کیلنڈر بدل چکا اب موسموں کی نئی روش کے پیش نظر نیا کیلنڈر وضع کرناہو گا ‘یہ مطالبہ بالکل جائز ہے کہ جن ممالک کی کارستانیوں سے پاکستان جیسے ممالک کو اس تبدیلی سے نقصان پہنچا ہے وہ نقصان اٹھانے والے ممالک بشمول پاکستان کے نقصانات کی تلافی کریں۔چین کے صدر کا دورہ امریکہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ وہ اس کے باوجود کہ امریکہ تائیوان کی چین کے خلاف ہلہ شیری کر رہا ہے چین چاہتا ہے کہ دنیا میں امن کے قیام کے واسطے امریکہ کے ساتھ مخاصمت کے بجائے مفاہمت کی پالیسی اختیار کی جائے‘ یہ یقینا چین کا بڑا پن ہے۔ اس ملک میں وہ سیاسی طبقے جو پارلیمانی جمہوریت کے داعی ہیں ان کے نزدیک وطن عزیز میں پارلیمانی جمہوریت اس وقت تک جڑیں نہیں پکڑ سکتی کہ جب تک تمام سیاسی پارٹیاں موروثی سیاست کو خیر آباد نہیں کہہ دیتیں۔