آج کل کے ڈاکٹر بلڈ پریشر شوگر ‘ہڈیوں اور جوڑوں کے درد اور کمزوری میں مبتلا مریضوں کو یہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ وہ سائیکل چلایا کریں‘ چین نے آج سے کئی برس پہلے ایسی سڑکیں بنانا شروع کر دی تھیںکہ جن کے دونوں اطراف میں ایک لین صرف سائیکل سواروں کیلے مختص کر دی جاتی ہے‘چنانچہ ایک عرصہ دراز سے چین کی سڑکوں پر کروڑوں انسان ‘زن و مرد صبح سویرے جب اپنے معمولات زندگی نبھانے اپنے گھروں سے باہر نکلتے ہیں توسا ئیکلوں پر سوار نکلتے نظر آ تے ہیں اور دن کے پچھلے پہر اپنا کام کاج ختم کرنے کے بعد جب اپنے گھروں کو واپس لوٹتے ہیں تو تب بھی سائیکل چلا کر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ چین میں امراض قلب بلڈ پریشر اور شوگر جیسے عوارض میں مبتلا افراد کی تعداد دوسرے ممالک کے مقابل میں کم ہے‘ کاش کہ وطن عزیز میں بھی چینی قیادت جیسی ذہانت اور دور اندیشی رکھنے والی لیڈرشپ پیدا ہوئی ہوتی‘ سیاست دان اور مدبرمیں فرق ہی یہی ہوتا ہے کہ سیاست دان آج کی سوچتا ہے جب کہ مدبر مستقبل کی بھی فکر کرتا ہے‘ چین کی قیادت نے 1949ءکے چینی انقلاب کے بعد آئندہ 50برس کا روڈ میپ تیار کر لیا تھا کہ ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی مسائل کا سامنا کیسے کرنا ہے اور پھر اپنے ٹارگٹ حاصل کرنے کے واسطے اس نے دن رات محنت کی اور اپنے مقرد کردہ اہداف کو حاصل کیا چینی قیادت بلا شبہ کمیونزم کے معاشی فلسفے کی داعی تھی پر اس نے وقار اور انا کا مسئلہ بنائے بغیر مغرب میں رائج سرمایہ دارانہ نظام سے بھی ان کئی معاشی کانسپٹز کو مستعار لینے میں عار نہیں کی کہ جو عوام دوست تھے۔ گوہر ایوب خان جن کا گزشتہ دنوں انتقال ہوا تھا‘ نے ہمارے ایک سوال کے جواب میں ایک مرتبہ بتایا تھا کہ ایوب خان اپنے دور حکومت میں جب کبھی بھی غیر ملکی دورے پر جاتے تھے تو اپنے ساتھ صرف اپنے ملٹری سیکرٹری کو لے کر جاتے اور کمرشیل فلائٹ میں سفر کرتے وہ اس بات کے قائل نہ تھے کہ چارٹرڈ جہاز بک کر کے اس میں خوشامدیوں کے کسی بھی ٹولے کو سرکاری خرچے پر بیرون ملک کی سیر کراتے ۔یہ ہے افواج پاکستان کے آفیسرز کیڈرز میں ریکروٹمنٹ کا معیار جس میں بری ‘بحری اور فضائی تینوں افواج شامل ہیں ‘کاش کہ ہمارے سویلین ادارے بھی اپنے ہاں اسی سخت قسم کی بھرتی کا ایک فول پروف سخت نظام وضع کریں تاکہ معاشرے کے بہترین افرادہی اس ملک کے سویلین ریاستی اداروں میں بھرتی ہوں اس کے بغیر ملک میں گڈ گورننس کا نظام نافذ نہیں ہو سکے گا۔