فوری نوعیت کے کرنیوالے کام


 وطن عزیز کے کسی بھی  شہر کے  فائر بریگیڈ کے نظام پر آپ اگر  ایک نظر ڈالیں کہ جو میونسپل ادارے چلا رہے ہیں تو ان میں آپ کو کئی نقائص دکھاہی دیں گے اور یہی وجہ ھے کہ جب بھی  کسی شہر میں لگی آگ کو بجھانا مقصود ہوتا ہے تو ان کو اپنی امداد کیلئے کنٹونمنٹ بورڈ یا ائر فورس اور یا کسی اور ادارے کے فائر بریگیڈ کو بلانا پڑتا ہے‘ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ میونسپل اداروں کے پاس جو فائر بریگیڈ کھڑے ہوتے ہیں  ان میں ایک سے زیادہ نقائص ہیں‘ وقت ضرورت پر  ان کے پاس آگ بجھانے کیلئے پانی اور آگ بجھانے کیلئے دوسرے ضروری سامان وا آلات کا فقدان پایا گیا  ہے‘  وقت آ گیا ہے کہ ملک بھر میں فائر بریگیڈ سسٹم کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے اس کے عملے کو ضروری تربیت دے کر اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ وہ  چوبیس گھنٹے چوکس اور مستعد رہے فائر بریگیڈ سسٹم کو آرمی کی طرح منظم کیا جائے اس کے عملے کیلئے اچھی تنخواہیں  مقرر کی جائیں یہ تو اس معاملے کا ایک پہلو ہے اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ جو جگہ جگہ ملک میں high riseکثیر المنزلہ عمارات بن رہی ہیں‘کیا متعلقہ ادارے ان کو تعمیر کی اجازت دینے سے پہلے این او سی جاری کرتے وقت اس بات کی تسلی کرتے ہیں کہ ان میں کسی بھی وجہ سے آگ لگ جانے کی صورت میں ان میں رہائش پذ یر لوگوں کا انخلا کیسے کیا جائے گا اور ہنگامی طور پر آگ کو کیسے بجھایا جائے گا ہر سال آگ بجھانے کا معقول انتظام نہ ہونے کی وجہ سے سینکڑوں جانیں آگ میں جل کر لقمہ اجل ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح ملک کا روڈ ٹریفک کا نظام بھی  روبہ زوال ہے جو ہر ماہ درجنوں زندگیوں کے چراغ گل کر رہا ہے ٹریفک پولیس والے ابھی تک اس بات کا تدارک نہیں کر سکے کہ 18 برس کی عمر سے کم افراد کار یا موٹر سائیکل نہ چلائیں  اسی طرح ان کی چشم پوشی سے تیز رفتار گاڑی چلانے والوں کی تعداد میں کمی کے بجائے اصافہ ہوا ہے ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کو اس بات سے بھی کوئی سروکار نہیں کہ جو کار بس ٹرک یا ویگن سڑک پر دوڑ رہی ہے وہ مکینیکلی فٹ بھی ہے کہ نہیں کیا اس کے ٹائر درست حالت میں ہیں؟ کیا اس کی بریکیں اور ٹای راڈز  ٹھیک ہیں یا نہیں؟ ایسے سسٹم کی ضرورت ہے جس سے پتہ چل سکے کہ کیا جو ڈرائیور گاڑیاں چلا  رہے  ہیں انہوں  نے کوئی نشہ تو نہیں کیا ہوا یہ کام نا ممکن تو نہیں البتہ مشکل اور محنت طلب ضرور ہیں‘ اسی طرح پولیس کا رویہ ان افراد کے ساتھ بھی کافی نرم ہے جو بغیر ہیلمٹ پہنے موٹر سائیکل چلاتے ہیں اور جان لیوا سر کی چوٹ کھانے سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں‘ اس ضمن میں ٹریفک پولیس کے حکام کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ آج خارجہ امور میں نہایت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے‘روس کے دل میں ہمارے خلاف جو میل تھی وہ بڑی مشکل سے  اب کہیں جا کر نکلی ہے اس لئے اب ہمیں کوئی ایسا اقدام نہیں اٹھانا چاہیے کہ جس سے روس کے دل میں ہمارے خلاف رتی بھر بھی کوئی شک پیدا ہو‘ بے شک امریکہ کے ساتھ دو طرفہ غیر مشروط قسم کے تعلقات رکھنے میں کوئی قباحت نہیں پر امریکہ کی گود میں بیٹھ کر ایسا قدم اٹھانا کہ جو روس کے مفادات کو زک پہنچاتا ہو‘ سے ہمیں احتراز کرنا ہو گا چین کے ساتھ تعلقات کو مزید مضبوط کرنا ہو گا اگر تو ہماری وزارت خارجہ نے روس اور چین کے ساتھ بنا کے رکھی تو یقین مانئے ہمارے دشمن وطن عزیز کے خلاف کسی بھی سازش میں کامیاب نہیں ہو سکتے‘وسطی ایشیا کی تمام ریاستوں کے ساتھ ہمیں نزدیکی تعلقات رکھنے ہوں گے کہ انکے ساتھ ماضی میں بھی تجارتی لحاظ سے  ہمارے قریبی روابط رہے ہیں‘ افغانستان میں جو سفارت کار تعنیات کرے وہ منجھے ہوئے ڈپلومیٹ ہوں‘ فارن آفس ان تمام پرانے سفارت کاروں کی خدمات سے استفادہ کرے کہ جو افغان امور سے واقف بھی ہوں اور ان پر دسترس بھی رکھتے ہوں‘اگر تو ہم افغانستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں گرمجوشی لانے میں کامیاب ہو گئے تو یہ پاکستان کی سب سے بڑی سفارتی کامیابی تصور ہوگی۔