عوام کو مزید دھوکہ نہیں دیا جاسکتا

انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دنیا کو ایک گلوبل ویلج بنا دیا ہے عوام میں سیاسی شعور بہت زیادہ ہو گیا ہے اب وہ یہ بھی جان جاتے ہیں کہ کسی بھی اڑتے ہوئے پرندے کے پر کتنے ہیں لہٰذا کوئی سیاست دان بھلے وہ حزب اقتدار میں ہو یا حزب اختلاف میں‘ یہ بالکل نہ سمجھے کہ اب عوام کو صرف کھوکھلے نعروں سے بہلایا جا سکے گا عوام چاہتے ہیں کہ سرمایہ داری کا سفینہ اب بالکل ڈبو دیا جائے‘ جاگیر داروں پر حصہ بقدر جثہ کے حساب سے ٹیکس لگایا جائے‘ ہر قسم کے سامان تعیش کی پاکستان میں درآمد پر پابندی نافذ کر دی جائے‘ ملک بھر میں ریلوے کے نظام کو فروغ دیا جائے اور شہروں کے اندر بھی سفر کے واسطے انڈر گراؤنڈ ٹرین سسٹم قائم کیا جائے‘سٹینڈرڈ آف لیونگ ٹیکسstandard of living taxلاگو کیا جائے اگر کوئی مرسڈیز یا بی ایم ڈبلیو یا اسی معیار کی کوئی اور گاڑی استعمال کے لئے امپورٹ کرنا چاہے تو اس پر بھاری بھر کم ٹیکس لگایا جائے‘ جائز اور مناسب طریقے سے پیسہ کمانا برا نہیں ہے پر آمدنی کے حساب سے ٹیکس دینا ضروری ہے‘پیسے درختوں پر نہیں اگتے‘ حکومتیں چلانے کے واسطے ریونیو جمع کرنا پڑتا ہے اور ریونیو ٹیکسوں سے جمع ہو تا ہے البتہ پاؤں اتنے ہی پھیلانے چاہئیں کہ جتنی چادر ہو اور یہ بات بھی اب قوم کو سمجھ لینی چاہئے کہ یہ بات پتھر کی لکیر ہے کہ ہر دولت کے انبار کے پیچھے خواہ مخواہ کوئی جرم کھڑاہوتا ہے اب قوم یہ چاہتی ہے کہ وطن عزیز میں اسی قسم کا طبی نظام قائم ہو کہ جیسے برطانیہ میں نیشنل ہیلتھ سروس NHSہے‘ سرمایہ داروں کو تو اگر پیچش بھی ہو تو ان کے پاس اتنا پیسہ ہوتا ہے کہ برطانیہ امریکہ یا دوبئی کے مہنگے ترین ہسپتال کے علاج کے واسطے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں‘پر غریب وطن کے اندر ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر جان دے دیتا ہے کہ اس کے پاس علاج کرانے کے لئے پیسے نہیں ہوتے‘ اگر ہر محنت کش کا ماہانہ مشاہرہ کم از کم ایک تولے سونا کی مارکیٹ کی قیمت کے برابر نہ کیا جائے گا تو اس کے گھر کے چولہے کو جلایا نہیں جا سکتا ان حقائق کو بہتر ہوگا کہ ایوان اقتدار میں آ نے کے تمام خواہشمند اپنے پلے باندھ لیں کہ اب خالی خولی نعرے لگانے کا وقت لد چکا اب قوم عمل دیکھنا چاہتی ہے تمام سیاسی پارٹیوں کے رہنماوں کو الیکشن کے لئے اپنا منشور بناتے وقت اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ وہ قوم کو سبز باغ نہ دکھائیں اور ایسے ایسے وعدے نہ کریں کہ جو وہ ماضی میں کرتے آے ہیں اورغریب کا معیار زندگی بلند کرنے کے لئے ان کو ایسے انقلابی اقدامات اٹھانے ہوں گے کہ جو دنیا کے کئی ممالک کے غریب پرور حکمرانوں نے گزشتہ سو سالوں میں اٹھائے ہیں آخر ہمارے حکمران طبقوں نے ان سے سبق کیوں نہیں سیکھا اور وہ قوم کو وعدہ فردا پر کیوں ٹالتے رہے ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے آج اس ملک میں نا انصافی امیروں کے ہاتھوں غریبوں کا معاشی استحصال۔ امیر اور غریب میں معاشی خلیج ظلم اور بربریت خطرناک حد کو چھو چکی ہے کوئی دن جاتا ہے کہ غریب کا ہاتھ ہو گا اور سرمایہ داروں کا گریباں‘اس مرحلے تک بات پہنچنے سے پیشتر اگر اشرافیہ از خود معاملات کی نزاکت کو بھانپ کر غریبوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے واسطے رضا کارانہ طور پر کوئی اقدام اٹھا لے تو وہ عوامی غیض و غضب کے نشانے سے اپنے آپ کو بچا سکتی ہے۔قیدیوں اور جیل ملازمین کے واسطے بہبود فنڈ کاقیام ایک اچھا اقدام ہے پر یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے‘جیل کا نظام چلانے کیلئے جیل مینوئل jail manual   میں واضح ہدایات درج ہیں پر ان پر شاذ ہی کسی نے عمل درآمد کیا ہے‘ جیل کے اندر کس قسم کی اصلاحات کی ضرورت ہے اس کے بارے میں کئی کئی کمشن بیٹھے ہیں جن کی رپورٹیں وزارت داخلہ اور صوبائی حکومتوں کے ہوم ڈیپارٹمنز کے آر کائیوزمیں موجود ہیں پر ان میں درج سفارشات پر ماضی میں کسی بھی حکومت نے عمل درآمد کرنے کی تکلیف نہیں کی۔