میرے گھر میں نارنج کا درخت ہے اور اس پر نارنج یا کھٹیاں بھی جی بھر کر لگتی ہیں‘ کھٹیاں جب زرد ہونے لگتی ہیں تو میرے دروازے پر گلی کے بچوں کی بھیڑ ہوتی ہے‘ اکثر میں ان سے پوچھتی ہوں کہ کیا کرو گے ان کا یہ تو کھانے میں ترش ہوتی ہیں‘ بولتے ہیں ماں اچار ڈالے گی۔دلاور بھی انہی بچوں میں ہے وہ ہر روز ہی تین چار کھٹیاں ضرور توڑ کر لے جاتا ہے‘ کہتا ہے میں سکول نہیں جاتا امی گھروں میں کام کرتی ہے ابا پینٹ کا کام کرتا ہے میں چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کرتا ہوں۔ مجھے مسکرانا پڑتا ہے کیونکہ دلاور کی عمر بمشکل سات سال ہو گی۔ کتنا بڑا المیہ ہے ہمارے معاشرے کا کہ ہمارے بچے جو غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں‘ سکول نہیں پہنچ سکتے اور ایسا کوئی حکومتی طریقہ کار بھی نہیں ہے کہ علاقے کے ہر بچے کی حاضری کو یقینی بنا دیا جائے۔ ایک مدرس سے بات ہو رہی تھی تو بتا رہا تھا کہ میڈم سکول کے بچوں کے یونیفارم چھوٹے ہو جاتے ہیں اور وہ خود لمبے ہو جاتے ہیں ایسے میں ان کی آنکھوں میں شرمندگی ہوتی ہے۔ مغرب میں رہ کر میں نے دیکھا یونیفارم کی سکولوں میں کوئی قید نہیں ہے جس قسم کا آپ کا لباس ہے آپ پہن کر آ جائیں جو شوز پہن سکتے ہیں پہن لیں بلکہ ان سکولوں میں سال میں ایک دفعہ پاجامہ ڈے منایا جاتا ہے کہ آپ رات کو پہننے والے پاجامہ میں آ سکتے ہیں اور آپ پڑھ کر حیران ہو جائیں گے کہ کریزی جرابوں کا ایک دن ہوتا ہے یعنی پاگل جرابیں ایک پاﺅں میں ایک رنگ کی جراب اور دوسرے پاﺅں میں دوسرے رنگ کی‘ شاید وہ اپنی تعلیم سے یہ سکھانا چاہتے ہیں کہ ایسا کرنا کوئی برائی نہیں‘ دو آپ رنگ کی جرابیں بھی پہن سکتے ہیں معاشرہ آپ پر ہنسے گا نہیں۔ دلاور کی مشکل
میں جانتی تھی پہلے تو اس کے غریب ماں باپ اس کو سکول کا یونیفارم بنا کر دیں‘ تیار یونیفارم ہو یا بنایا جائے کسی طور پر ہزار روپے سے کم نہیں ہے پھر کالے بوٹ جو کسی طرح بھی چھ سو سے ہزار روپے تک کے ملتے ہیں‘ کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کیوں کالے ہی بوٹ پہنائے جاتے ہیں جو گھر میں سفید‘ نیلے‘ پیلے جو بھی ہیں پہن لیں مقصد تعلیم حاصل کرنا ہے۔ ظاہر ہے دلاور اور اس
جیسے لاتعداد بچے یونیفارم مہیا نہیں کر سکتے ورنہ ان کو اس بات پر سخت سزا ملتی ہے،م لوگ فطرتاً شاید ظالم ہیں ایک بچہ فیس دیر سے دیتا ہے یا یونیفارم صحیح نہیں پہنتا تو اس میں اس کا کوئی قصور نہیں شاید ماں باپ کا بھی قصور نہیں۔ مہنگائی‘ غربت‘ پژمردگی نے یونیفارم‘ بوٹ‘ کتابیں ان سب باتوں سے غریبوں کو بےگانہ کر دیا ہے‘ کاش اہل علم و دانشور ان باتوں کا کوئی بدل سوچیں اور تعلیم کو ہر بچے تک رسائی دے سکیں۔ ہمارے معاشروں میں چھوٹی چھوٹی اتنی بے حسیاں اور بے دردیاں ہیں کہ عقل سٹپٹا جاتی ہے یا پھر بدقسمتی سے آپ نے مغرب کے زندہ دل معاشرے دیکھ رکھے ہوں جن کے عوام ہر ظلم و ستم پر ایسے گھروں سے نکلتے ہیں کہ جیسے یہ ان کے اپنے گھر
کا‘ ان کا ذاتی مسئلہ ہے، ہم جانوروں کو دیکھ کر ان کو مارتے ہیں اچھا بھلا کتا سڑک پر جا رہا ہوتا ہے ہم اس کو پتھر مار دیتے ہیں‘ ترکی میں ایک سیاحت کے دوران ہمارا ایک نہایت تعلیم یافتہ ساتھی اس جرم کا مرتکب ہوا راہ چلتے ہوئے ایک کتے کو پتھر مار دیا حالانکہ وہ اپنی راہ پر جا رہا تھا نہ بھونک رہا تھا نہ حملہ کرنے کے موڈ میں تھا بس پھر ترکی کا رہنے والا ہمارا گائیڈ اتنا سخت ناراض ہوا کہ کئی منٹ تک اس نے ہمیں جانوروں کے حقوق پر لیکچر دیا لیکن اس کو نہیں پتہ کہ ہم ایسا کرتے ہیں تو ہمارے نہ جانے کتنے نفسیاتی مسائل کا حل یہی ہوتا ہے ہم گنجے کو سر پر تھپڑ لگا دیتے ہیں‘ ہم معذوروں کا مذاق اڑاتے ہیں ‘ ہم لنگڑا کے چلنے والے کو لنگڑا کہہ کے نہ پکاریں تو ہمیں بے چینی ہوتی ہے اگر ہم اپنی زبان پر قابو رکھیں تو ایک اچھے معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں‘ زمانہ بدل چکا ہے ہمیں ترقی کرنے کے لئے اپنی عادات‘ طور طریقے مہذب بنانے ہوں گے، دلاور کے سکول نہ جانے کا غم کئی گھنٹے تک میرے اوپر طاری رہا نہ جانے کتنے دلاور اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال کرتے ہوں گے ان کے ماں باپ چھ سات بچوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کےلئے صبح سویرے مزدوری کرنے نکل جاتے ہونگے یہاں بنیادی سہولیات تک موجود نہیں حساس انسان کےلئے یہ چھوٹے غم بھی بڑے ہوتے ہیں کیوں کہ ہم ایک قوم میں ایک معاشرے ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک گھر میں تو بچے اچھے سکولوں میں جائیں‘ پورا یونیفارم پہنیں اور ان کے لئے آسائشیں ہوں اور ساتھ والے گھر کے بچے سکول کی تعلیم سے محروم رہیں‘ کاش ہم اپنے نظام کو بدل ڈالیں۔