نیرنگی سیاست 


ملک کے سیاسی افق پر ابھی تک دھند پھیلی ہوئی ہے اس بات کا اندازہ سردست لگانا مشکل ہے کہ انجام کار سیاسی پارٹیوں کے اونٹ کس کروٹ بیٹھیں گے تمام سیاسی پارٹیوں کے سرکردہ لیڈرز ایک دوسرے کیلئے لے رہے ہیں اس قسم کی غیر یقینی سیاسی صورتحال تو پہلے اس ملک میں کبھی بھی ہم نے نہیں دیکھی تھی کیا ن لیگ اور پیپلز پارٹی الیکشن میں ایک دوسرے کاساتھ دیں گی اگر پی پی پی اور ن لیگ الیکشن میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوتی ہیں تو جے یو آئی کس کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالے گی‘ گو کہ سیاست میں کوئی بھی حرف آخر نہیں ہوتا پر سر دست جے یو آئی کا پی ٹی آئی سے کسی طور بھی سمجھوتہ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا البتہ جے یو آئی نے ملک کی باقی دو بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پی پی پی سے بنا کر رکھی ہوئی ہے کئی سیاسی مبصرین کا تو یہ خیال ہے کہ پی پی پی اور ن لیگ میں سے جس کسی نے بھی مولانا فضل الرحمن کی زیادہ سے زیادہ شرائط پر اتفاق کیا جے یو آئی اس کے ساتھ الیکشن کے اکھاڑے 
میں یکجان دو قالب ہو کر اتر سکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت ملک میں جو سیاسی کھیل کھیلا جا رہا ہے اس میں جتنی مہارت مولانا صاحب کو حاصل ہے کسی اور سیاست دان کو حاصل نہیں ہے جماعت اسلامی شاید آنے والے الیکشن میں تن تنہا حصہ لے کیونکہ اس کے خیالات اس وقت ملک کی کسی جماعت سے بھی میل نہیں کھا رہے جے یو آئی س بھی جماعت اسلامی کی طرح لگتا ہے کہ اب کی دفعہ الیکشن میں تن تنہا دیگر سیاسی جماعتوں کا مقابلہ کرے گی دیگر سیاسی جماعتوں کے بارے میں جتنا بھی کم لکھا 
جائے بہتر ہوگا۔ اگر آپ دنیا میں پارلیمانی جمہوری نظام پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ نظام صرف ان ممالک میں کامیاب ہوا ہے جہاں خواندگی کی شرح زیادہ تھی جہاں صرف دو یا زیادہ سے زیادہ تین سیاسی پارٹیاں موجود تھیں ہمارے ہاں یہ دونوں چیزیں عنقا ہیں‘ اس ملک کی پارلیمانی جمہوریت کی ایک قباحت یہ بھی ہے کہ الیکشن میں کئی افراد بطور آزاد امیدوار بھی کھڑے ہو جاتے ہیں اور یہ آزاد امیدوار پھر حکومتوں کی تشکیل میں ہارس ٹریڈنگ کو جنم دیتے ہیں ظاہر ہے ہر سیاسی پارٹی ایوان اقتدار میں آنے کیلئے پھر ان سے سودے بازی کرتی ہے اور ان کی حمایت حاصل کرنے کیلئے ان کی ہر جائز و ناجائز بات بھی مان لیتی ہے۔ ان ابتداہی کلمات کے بعد ذرا ذکر ہو جائے چند تازہ ترین اہم معاملاتِ کا‘ خیبر پختونخوا کے سابق گورنر اور وزیر اعلیٰ سرداد مہتاب عباسی نے بڑے 
پتے کی بات کہی ہے کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری پارلیمنٹ میں ایسے افراد قوم کی نمائندگی کریں جن کے پاس تجربہ بھی ہو اور صلاحیت بھی اس ضمن میں اب یہ سیاسی جماعتوں کے قائدین کی زمہ داری ہے کہ وہ اسمبلیوں کے ٹکٹ تقسیم کرتے وقت ان باریکیوں کو مد نظر رکھیں معاشرے کے ہر لحاظ سے بہترین متقی اور پر پرہیز گار افراد کو پارلیمنٹ کے لئے منتخب کرنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ تو قوم بہت سن چکی کہ پاکستان میں غیر قانونی طریقے سے مقیم کتنے افغانیوں کو واپس اپنے وطن بھیج دیا گیا ہے پر ابھی تک قوم کو کسی نے یہ نہیں بتایا کہ پاسپورٹ دفاتر کے وہ کون کون سے اہلکار تھے کہ جنہوں نے ان افغانیوں کے لئے پاسپورٹ بنائے اور کون تھے وہ لوگ جن کی سفارشوں پر یہ جعلی کام سر انجام دیئے گئے اور ان کو حکومت نے اب تک کیا سزا دی ہے وطن عزیز میں اخلاقیات کا فقدان ہی اس لئے پیدا ہواہے کہ اس ملک میں سزا اور جزا کے کانسپٹ پر کسی نے کام ہی نہیں کیا۔