یہ بات تو طے ہے کہ جب تک وطن عزیز میں شفاف اور منصفانہ نئے الیکشن نہ ہوں گے نہ ملک کے عوام کی تسلی ہو گی اور نہ سپر پاورز میں کوئی ہمیں گھاس ڈالے گا لہذا ہماری سب سے پہلی ترجیح تو الیکشن کا فوری انعقاد ہے ‘یہ بات تمام سیاسی پارٹیوں کے کرتا دھرتا اپنے پلے باندھ لیں کہ اس ملک کے ہر شعبہ زندگی میں انقلابی اصلاحات کی فوری اور اشد ضرورت ہے سب سے پہلے تو نئے منتخب حکمرانوں کو اس ملک کی معیشت کو درست کرنا ہوگا اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ غربت کی لکیر سے نیچے جتنی آبادی ہے وہ اس لکیر سے اوپر آ جائے اس ضمن میں کوئی قباعت نہیں ہے اگر ہمارے ماہرین معیشت چین کے معاشی ماڈل سے استفادہ کریں اور یہ دیکھیں کہ آخر چینیوں نے یہ کارنامہ کیسے کر دکھایا کہ بیس برسوں میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسرکرنے والوں کو وہ اس لکیر سے اوپر لے آئے ۔پیسے درختوں پر نہیں اگتے ملک چلانے اور عوام کو بنیادی سہولیات زندگی بہم پہنچانے کے واسطے فنڈز درکارہوتے ہیں جو ملک کے متمول افراد پر لگا کر سرکاری خزانے میں جمع کئے جاتے ہیں دنیا میں جو ممالک عوامی ‘فلاحی ریاستیں کہلاتی ہیں ان میں عوام کو ملک کے اندر اور شہروں کی بیچ سفر کے واسطے ریل گاڑی کی سروس فراہم کی جاتی ہے ان ریاستوں میں پیدائش سے لے کر وفات تک ارباب اقتدار ہر شہری کو مناسب خوراک پہنچانے اور بیماری کی صورت میں مفت طبی سہولیات فراہم کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں لوگوں کو روزگار کے ذرائع مہیا کرنا بھی ارباب اقتدار کے فرائض منصبی میں شمار کیا جاتا ہے فلاحی ریاست میں تمام بچوں کو مفت تعلیم بھی دی جاتی ہے آج کل کے دور میں یہ تمام سہولیات کئی ممالک بشمول چین روس برطانیہ ناروے ڈنمارک کنیڈا اور سویڈن میں عام آدمی کو میسر ہیں پاکستان کے عوام کی بھی اب آ نکھیں کھل چکی ہیں اس لئے اگر آئندہ الیکشن جیت کر آنے والی کسی بھی حکومت نے اب کی دفعہ عوام کو وعدہ فردا پر ٹرخانے کی کوشش کی تو اس کا گریبان ہوگا اور عوام کا ہاتھ ارباب اقتدار کو اب اس ملک سے استحصالی نظام کا قلع قمع کرنا ہوگا بڑی بڑی جاگیروں کا خاتمہ کرنا ہوگاسٹنڈرڈ آف لیونگ standard of living tax کے نام سے ایک ٹیکس اشرافیہ پر لگانا ہوگا‘ جائز طریقے سے مال کمانے پر کوئی پابندی نہیں پر اس پر اسی حساب سے پھر اشرافیہ کو ٹیکس بھی ادا کرنا ہو گا جو بھی منتخب نئی حکومت آ ئے گی اسے چین کے ساتھ موجودہ روابط کو مزید مضبوط کرنے ہوں گے اور روس کے ساتھ قربت کو فروغ دینا ہو گا سینٹرل ایشیا کے ممالک کے ساتھ تعلقات کو بڑھانا ہوگا کوشش کرنا ہو گی کہ ایران افغانستان اور ترکیہ کے ساتھ تعلقات خوشگوار رہیں یورپی یونین کے ممالک کے ساتھ بھی تعلقات کو استوار کرنا ہوگا اور امریکہ کے ساتھ بھی دو طرفہ تعلقات کو قائم رکھنا ہوگا جب تک پولیس‘ سول سروس اور دیگر قومی ریاستی اداروں میں خالصتاً میرٹ اور صرف میرٹ پر بھرتی کا سلسلہ شروع نہیں کیا جاتاگڈ گورننس کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔ ایوب خان نے ملک میں ڈیمز بنانے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اگر وہ ان کے بعد آنے والے حکمرانوں نے جاری رکھا ہوتا تو آج یہ ملک توانائی کے بحران کا شکار نہ ہوتا۔یہ جو ڈپٹی کمشنرز نے اپنے اپنے دائرہ اختیار کے اندر مختلف علاقوں میں کھلی کچہری لگانے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے یہ اچھی روایت ہے پر اس کو عوام کے لئے زیادہ سودمند ایسے بنایا جا سکتا ہے کہ اس میں ضلع کے تمام لائنز ڈیپارٹمنٹس کے سربراہان کو بھی مدعو کیا جائے اور پھر ان کو اور عوام کی شکایات اور تجاویز سننے کے بعد جو فیصلے بھی کئے جاہیں ان پر فالو اپ ایکشن اس طرح لیا جائے کہ اسی علاقے میں جب ایک ماہ کے بعد دوسری کھلی کچہری لگائی جائے تو پچھلی کھلی کچہری میں جن جن شکایات کے ازالے کے واسطے فیصلے کئے گئے ان پر جو جو ایکشن متعلقہ حکام نے لینا تھا کیا وہ لیا بھی گیا یا نہیں ۔اشیا خوردنی کی قیمتوں پر گہری نظر رکھتے کے کے لئے بھی ڈپٹی کمشنرز کو فورا ًسے پیشتر ڈسٹرکٹ پرائس ریویو کمیٹیوں کو متحرک کرنا ہو گا ان میں نہ صرف تاجر برادری کے نمائندوں کو شامل کرنا بھی ضروری ہے ان میں صحافی برادری کے نمائندوں اور شہر کے معززین کوبھی شامل کرنا ضروری ہے‘ ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولر کو اس کمیٹی کا جنرل سیکرٹری بنانا بھی ضروری ہے کسی زمانے میں ہر ماہ کی دس تاریخ کو اس کمیٹی کا اجلاس ڈی سی کی صدارت میں ہوا کرتا تھا تاجروں پر یہ لازم تھا کہ اگر وہ کسی ٹھوس وجہ سے اشیائے خوردنی یا کسی بھی اشیائے صرف کی قیمت میں اضافہ کرنا چاہتے تو اس کمیٹی کے سامنے اپنا موقف پیش کرتے اور اتفاق رائے سے اگر یہ کمیٹی انہیں ایسا کرنے کی اجازت دیتی تو تب کہیں جا کر قیمت میں اضافے کا نوٹیفیکشن وہ کمیٹی کرتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔