یہ مہینہ بانی پاکستان کی پیدائش کا مہینہ ہے‘ا س لئے زیب دیتا ہے کہ اس کا آغاز بھی ہم اس عظیم لیڈر کی باتوں سے ہی کریں ان کے قریب رہنے والوں جو لوگ جیسا کہ ان کے ملٹری سیکرٹری یا اے ڈی سی تھے انہوں نے اپنی اپنی جن یاداشتوں کو قلمبند کیا ہے ان کے مطالعے سے قائد اعظم کی جو شخصیت ابھرتی ہے وہ نہایت عظیم ہے ان کے کردار کی چند جھلکیاں درج ذیل واقعات سے ابھرتی ہیں جو اب آپ سے شیئر کی جا رہی ہیں قائد اعظم قول سے زیادہ فعل پر یقین رکھتے تھے ان کے ایک ڈرائیور نے ایک جگہ لکھا ہے کہ انہوں نے کئی کئی مرتبہ قائد کو گورنر جنرل ہاﺅس کراچی کی فالتو بتیاں رات کو اپنے ہاتھ سے بند کرتے دیکھا ہے‘ ایک مرتبہ انکے اے ڈی سی نے ان سے پوچھا سر‘ کل کابینہ کی میٹنگ میں شرکا کےلئے کافی کا بندوبست کیا جائے یا چائے کا‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ کیا وہ گھر سے ناشتہ کر کے نہیں آئیں گے‘اس کے بعد یہ معمول بن گیا کہ ہر کیبنٹ میٹنگ جس کی صدارت انہوں نے کرنا ہوتی شرکا کے واسطے سادہ پانی جگ میں رکھا جاتا ہم سب جانتے ہیں کہ بعد میں آنےوالے حکمرانوں کی میٹنگز کے دوران سرکاری خزانے سے کس بے دردی کے ساتھ فائیو سٹارزہوٹلوں سے قسم قسم کے کھانے منگواے جاتے جن پر ایک کثیر رقم اٹھ جاتی تھی‘ وقت کی پابندی کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ 1946میں وہ پشاور میں نشتر آباد میں ایک مسلم لیگی کے گھر میں قیام پذیر تھے اور شام کے پانچ بجے انہوں نے ایک مسلم لیگی شخصیت کو ملاقات کا وقت دے رکھا تھا وہ ٹھیک پانچ بجے تیارہو کر اس گھر کے ڈرائنگ روم جا بیٹھے جب پانچ بجکر دس منٹ تک وہ صاحب نہ آئے تو قائد اعظم وہاں سے اٹھ کر واپس اپنے سونے کے کمرے میں چلے گئے‘ساڑھے پانچ بجے جب ان کو بتلایاگیا کہ وہ ملاقاتی آن پہنچا ہے تو قائد نے اسے کہا کہ وہ اس وقت ملاقات نہیں کر سکتے ‘ ملاقات کے مقررہ وقت سے لیٹ پہنچا ہے‘ کراچی کا ایک واقعہ بھی پڑھ لیں‘ سید ہاشم رضا کراچی کے کمشنر تھے ‘ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجرین کو کراچی میں گھر الاٹ کرنے کیلئے جو کمیٹی بنائی گئی تھی وہ اس کے چیئرمین تھے ایک پرانا مسلم لیگی جو ہندوستان سے ہجرت کر کے آیا ہوا تھا نے قائد سے کہا کہ وہ کمشنر سے ذرا سفارش کر دیں کہ اس کو گھر الاٹ کر دیا جائے جس پر انہوں نے کہا کہ وہ کمشنر کو سفارش نہیں کر سکتے‘ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ قائد اعظم وقت کے بڑے پابند تھے‘ سفارش اور اسراف کے سخت خلاف تھے اقرباءپروری کے وہ کس قدر خلاف تھے اس کا اندازہ آپ کو اس واقعے سے ہو جائے گا جو اب ہم نچلی سطور میں درج کرنے جا رہے ہیں ایک مرتبہ ان کا ایک رشتہ دار ان سے ملاقات کےلئے آیا اور اپنے وزیٹنگ کارڈ پر کزن آف قائد اعظم لکھ کر ان کے ملٹری سیکرٹری کو دیا‘ قائد نے اپنے قلم کی سرخ سیاہی سے کزن کا لفظ کاٹ کر ملٹری سیکرٹری سے کہا کہ انہیں کہیں وہ آئندہ کزن کا لفظ نہ لکھا کرے‘ ایک اور دلچسپ واقعہ بھی قارئین کے پیش نظر رہے‘ پشاور کے کنگھم پارک میں جو‘ اب جناح پارک کہلاتا ہے قائد اعظم ایک جلسہ عام سے خطاب کر رہے تھے وہ کبھی اردو بولتے تو کبھی اپنی تقریر میں انگریزی کے الفاظ بھی استعمال کر رہے تھے جلسہ میں پشتو ن سے جو قائد کی تقریر کے دوران تالیاں بجا رہا تھا وہاںایک رپورٹر نے یہ پوچھا کہ تم کو نہ تو اردو آتی ہے اور نہ انگریزی تو تم کس بات پر تالیاں بجا رہے ہو ‘اس نے کہا کہ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ یہ شخص جو کچھ بھی کہہ رہا ہے وہ بالکل سچ ہے کیونکہ یہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا ۔